چٹ فنڈ کمپنیوں کا یہ گورکھ دھندہ!

جھانسے دیکر لوگوں سے پیسہ ٹھگنے کے الزام میں شاردا گروپ کے چٹ فنڈ تنازعے پر مغربی بنگال میں سیاسی طوفان کھڑا ہوگیا ہے۔ کمپنی کے چیئرمین سدپتوسین کے ذریعے مبینہ طور سے سی بی آئی کو لکھے خط میں دو ترنمول کانگریس ممبران اسمبلی کرنال گھوش اور سنجے بوس کا نام بھی لیا گیا ہے۔ ان پر انہوں نے بلیک میلنگ کا الزام لگایا ہے۔ وہیں تنازعے سے نمٹنے کے لئے وزیر اعلی ممتا بنرجی نے فوراً500 کروڑ روپے کی راحت دینے کے لئے فنڈ بنانے کا اعلان کردیا ہے۔ جو گروپ کے ذریعے ٹھگے گئے لوگوں کو رقم لوٹانے کے کام آئے گا۔ ساتھ ہی ممتا کو یہ کہنا پڑا کہ اگر ان کے لیڈروں نے جرم کیا ہے تو قانون کے تحت قدم اٹھائے جائیں گے۔ ادھر شاردا گروپ کی مشکلیں بڑھ گئی ہیں۔ انکم ٹیکس محکمے کے ذریعے دی گئی ہدایت اور مالی گھوٹالے کی جانچ کی تیاری شروع ہوگئی ہے۔ سدپتو سین کے ذریعے سی بی آئی کو لکھے خط میں کئی نیتاؤں،افسران و وکیلوں کے نام بھی شامل ہیں،جو اسے بلیک میل کیا کرتے تھے۔ کرنال گھوش نے حال ہی میں شاردا گروپ کے سی ای او کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا جبکہ سنجے ایک بنگلہ روزنامہ کا مدیر ہے۔ اس نے اپنے بیان میں کہا کہ ان کے اخبار کا چینل10 ٹی وی سے کمرشل ٹائی اپ ہے۔ اس کا شاردا چٹ فنڈ کمپنی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔چینل10 شاردا گروپ کا ہے۔ شاردا کمپنی کے چیف سے تعلق پر پوچھے جانے پر انہوں نے کہا ہمیں پتہ نہیں تھا کہ یہ شخص ایک جعلساز ہے ۔مغربی بنگال میں شاردا گروپ کا گھوٹالہ مالی دھاندلیوں پر نظر رکھنے کیلئے سرکار کی کوتاہی ظاہر کرتا ہے۔ بیشک اس کمپنی کے عہدیداران کو گرفتار کرلیا ہے اور سیبی نے گروپ کی سبھی کاروباری سرگرمیوں کی جانچ شروع کردی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے دھوکے سے پیسہ اکٹھا کرنے والوں کے خلاف سخت اور صاف قانون نہ ہونے کے سبب عدلیہ کی کارروائی لچر رہتی ہے۔ قریب10 سال پہلے جب دیش میں غیر بینکنگ مالیاتی کمپنی کے نام سے چٹ فنڈ چلانے والے گروپوں کا جعل پھیل چکا تھا اور اس کے جھانسے میں آکر لاکھوں لوگوں نے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی کو بچت اکاؤنٹ میں دینے کے معاملے اجاگر ہوئے تھے، تب حکومت نے اس کے خلاف سخت رویہ اختیار کیا تھا لیکن تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ سرمایہ کاروں کے پورے پیسے نہیں مل پائے۔ اسکے بعد بھی ان کا پیسہ کہاں گیا یہ سب جانتے سمجھتے ہوئے چٹ فنڈ کا کاروبارجاری ہے۔ اور حیرانی اس بات پر ہے کہ ان کمپنیوں پر نکیل کسنے کا کوئی باقاعدہ طریقہ نہیں نکالا جاسکا۔ ان چٹ فنڈ کمپنیوں کی سرگرمیاں کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن سیبی کی آنکھیں تب کھلتی ہیں جب لاکھوں لوگ تباہ ہوجاتے ہیں؟ شاردا گروپ کی کمائی کا اندازہ اس سے لگایا جاتا ہے کہ مغربی بنگال کے 19 ضلعوں میں اس کے 1 لاکھ ایجنٹ کام کررہے ہیں اور کمپنی کی 360 شاخیں ہیں۔ دراصل ایک مشکل یہ بھی ہے کہ یہ چٹ فنڈ کمپنیاں رجسٹرڈ نہیں ہوتیں۔ وہ رکشا چلانے والے، ریڑی مزدوری کرنے والوں سے لیکر بھیک مانگنے والوں تک تمام لوگوں کو سبز باغ دکھا کر روزانہ معمولی سے معمولی رقم جمع کرنے کے لئے راضی کرلیتی ہیں کیونکہ ایسی سرمایہ کاری کو کوئی قانونی سرپرستی حاصل نہیں ہوتی۔ یہ کمپنیاں اپنی وصولی وغیرہ سے وابستہ جانکاریاں چست درست رکھنے کے لئے پابند نہیں ہوتیں۔ فرضی کاغذات کے ذریعے سارا کاروبار چلتا ہے۔ اس طرح سے پیسہ اکھٹا کرنے کا جعل صرف چٹ فنڈ کمپنیوں تک محدو د نہیں رہا۔ اب تو انٹرنیٹ، اخباروں اور ٹی وی پر اشتہارات کے ذریعے چھوٹی سرمایہ کاری پر بڑی کمائی کا جھانسہ دینے والے بہت سے گروہ سرگرم ہیں۔ ایسے معاملوں میں واضح قانون اور اتھارٹیوں کا دائرہ اختیار مقرر نہ ہونے کے سبب ایسی کمپنیاں بچ جاتی ہیں۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ الگ الگ معاملوں میں مالی دھاندلیوں کے خلاف کارروائی کی ذمہ داری الگ الگ سرکاری ایجنسیوں کو سونپی جاتی ہے۔ اس میں کارروائی تیزی سے ہوسکتی ہے۔ جہاں یہ مختار مالیاتی کمپنیاں رجسٹرڈ ہو ۔ وقت آگیا ہے کہ سرکار اس چٹ فنڈ کے گورکھ دھندے پر نکیل کسنے کے لئے ایک آزاد ایجنسی بنانے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچے۔ ممتا کے ذریعے 500 کروڑ روپے کا فنڈ قائم کرنا کوئی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ پورے دیش میں تو پتہ نہیں کتنے ہزاروں کروڑ روپے کا یہ دھندہ اس وقت چل رہا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟