الٹا پڑ گیا پرویزمشرف کا وطن واپسی کا داؤں

پاکستان کے سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف پتہ نہیں کیا کیا سوچ کر اپنے وطن پاکستان واپس لوٹے تھے؟ جب سے ان کی واپسی ہوئی ہے تبھی سے ان کی راہ میں ایک کے بعد ایک روڑا کھڑا ہورہا ہے۔ ان کی پریشانیاں دور ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ اپنی جلاوطنی ختم کرکے جب وہ پاکستان آئے تو کراچی کے ایک عدالت میں ان پر جوتا پھینکا گیا۔ جس وقت جوتا پھینکا گیا کورٹ کا احاطہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اس واقعہ کو گذرے بمشکل ایک ہفتہ ہی ہوا تھا کے سپریم کورٹ نے ان پر ملک کی بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلانے کا آغاز کردیا۔ پھر پاکستان کے الیکشن ٹریبونل نے ان کے پارلیمنٹ پہنچنے کی دوڑ پر بریک لگادی۔ اس نے صاف حکم دیا کے وہ چناؤ نہیں لڑ سکتے۔ ابھی ان کے چناؤ نہ لڑپانے کا معاملہ ختم نہیں ہوا تھا کہ اسلام آباد کی ایک عدالت نے ان کی گرفتاری کا راستہ صاف کرتے ہوئے ان کی ضمانت عرضی خارج کردی۔ اب حالت یہ بن گئی ہے کہ انہیں گرفتار کرنے سے پہلے انہیں اپنے پاکستانی رینجرز کے گھیرے میں کورٹ سے بھاگنا پڑا تھا۔ آج وہ اپنے محل نما فارم ہاؤس میں محض دو کمروں کے اندر زندگی جینے کو مجبور ہیں۔ ان کے رشتے داروں یا پرائیویٹ اسٹاف اور وکیلوں سے ملنے پر بھی پابندی لگی ہوئی ہے۔ اس پانچ ایکڑ میں پھیلے فارم ہاؤس کو ڈپٹی جیل میں تبدیل کیا جاچکا ہے۔ 69 سالہ سابق فوجی جنرل کو انسداد دہشت گردی عدالت نے 15 دن کی جوڈیشیل ریمانڈ میں بھیج دیا ہے۔ اس طرح کی کارروائی کا سامنا کرنے والے پرویز مشرف دیش کے پہلے سابق فوجی سربراہ ہیں۔ فارم ہاؤس کے چاروں طرف15 فٹ اونچی دیواریں ہیں اس میں دو کمرے بم پروف ہیں۔ اس کی لاگت 2 ملین ڈالر مانی گئی ہے۔ آج اگر مشرف اپنے آپ کو اس حالت میں پا رہے ہیں تو کافی حد تک وہ اس کے لئے خود ذمہ دار ہیں۔ جو بیج انہوں نے بویا وہ خود کاٹ رہے ہیں۔ مشرف 1999 ء میں ایک منتخبہ حکومت کا تختہ پلٹ کر تاناشاہی قائم کرکے 2001ء میں صدر بنے اور 2008 ء تک اس عہدے پر فائض رہے۔ اس دوران انہوں نے کئی قدم اٹھائے جو اب ان پر ہی بھاری پڑ رہے ہیں۔ فوجی سربراہ رہتے ہوئے جنرل مشرف نے منتخبہ حکومت کے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اب بھی مشرف کے خلاف ملک کی بغاوت اور آئین کی خلاف ورزی کے الزام میں مقدمہ چلانے کی مانگ کررہے ہیں۔ ایمرجنسی کے دوران ہی اسلام آباد میں سپریم کورٹ کی عمارت میں فوج داخل کی اور اس نے قریب7 ججوں کو حراست میں لیا جس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری بھی تھے، ان ججوں کو برخاست کردیا گیا۔ مشرف کی گرفتاری کا حکم ججوں کو حراست میں رکھنے کے معاملے میں آیا ہے۔ 2009ء میں ایک وکیل نے دیش میں ایمرجنسی نافذ کرنے اور ججوں کو حراست میں لینے کے لئے مشرف کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرنے کی مانگ کی ہے۔ 2007ء میں دیش میں ایمرجنسی تھوپ کر سرکاری ٹیلی ویژن اور ریڈیو اسٹیشن پر بھی فوج قابض ہوگئی۔ پرائیویٹ چینلوں کا ٹیلی کاسٹ بھی روکا گیا۔ ان سب کو جمہوریت کا قتل مانا گیا۔ قتل کے الزام بھی ان پر لگے ہوئے ہیں۔ 2007ء میں جس وقت سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کا قتل ہوا اس وقت پاکستانی فوج کی کمان مشرف کے ہاتھوں میں تھی۔ اس سے پہلے2006ء میں بلوچ نیتا نواب اکبر بگتی کی پر اسرار حالت میں موت ہوئی تب بھی مشرف پر انگلی اٹھی۔ بھٹو کے معاملے میں مشرف پر الزام لگا کے خطرے سے واقف ہونے کے باوجود انہوں نے بینظیر کو مناسب سکیورٹی نہیں دی۔ اسلام آباد کی لال مسجد پر2007 ء میں فوجی ایکشن ہوا تھا اس میں بھی مشرف کو قصوروار اور حکم دینے والا مانا گیا تھا۔ اس معاملے میں بھی مشرف کو عدالت میں پیش ہونا پڑے گا۔ اگست2008 ء میں اتحادی سرکار نے مشرف پر پارلیمنٹ میں مقدمہ چلانے کی کارروائی شروع کرنے کی بات کہی ہے۔مشرف اگست2008ء میں صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے کر خود ہی دیش چھوڑ گئے تھے۔ لندن میں قریب ساڑھے چار سال تک جلا وطنی کی زندگی ختم کرتے ہوئے چناؤ میں حصہ لینے کے لئے مشرف 24 مارچ کو کراچی آئے۔ اس طرح ہے کچھ پرویز مشرف کی عرش سے فرش تک کی داستاں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟