پاکستان کے اکسانے کے پیچھے آخر اصل منشا کیا ہے؟
دراصل ہم تو اس نتیجے پر پہنچے ہیں کے پاکستان بھارت کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر بڑھ رہی کشیدگی کو کم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ ان کا کوئی بڑا گیم پلان ہے جس کا میندھر سیکٹر میں دو ہندوستانی فوجیوں کا سر قلم کرنا ایک حصہ ہے۔اگرایسا نہ ہوتا تو کنٹرول لائن پر کشیدگی کم کرنے کے لئے مشکل سے ہوئی فلیگ میٹنگ سے ٹھیک ایک دن پہلے جنگ بندی کی پھر سے خلاف ورزی نہ کرتا۔ یہ ہی نہیں بھارت نے پاکستان پر تازہ الزام لگایا ہے کے دونوں ملکوں کے درمیان برگیڈیئر سطح پر ہوئی فلیگ میٹنگ کے بعدسے اب تک وہ پانچ بار جنگ بندی کی خلاف ورزی کر چکا ہے لہٰذا پیر کو فلیگ میٹنگ کا جو نتیجہ نکلنا تھا وہ ہی نکلا یعنی کچھ بھی نہیں۔ کوئی 25 منٹ تک چلی میٹنگ میں دونوں فریقین اپنی اپنی بات رکھتے رہے لیکن اس میٹنگ میں ہندوستانی نمائندہ وفد نے پاکستانیوں کو بخشا نہیں اور ان کی للو چپو نہیں کی۔ ہندوستانی فوج کی جانب سے بات کررہے برگیڈیئر ایم ایم سمترا نے پاکستان سے سیدھا پوچھا کے کیا بارڈر پر پاک فوج کی بجائے کوئی اور نگرانی کررہا ہے؟ ہندوستانی برگیڈیئر کے اس سوال کو سن کر پاکستانی افسر بغلیں جھانکنے لگے۔ برگیڈیر سمترا نے نے یہ سوال میندھر واقعہ میں پاکستانی فوج کے اپنے آپ کو بے قصور بتانے پر پوچھا تھا۔ ہندوستانی فوجیوں حکام نے اس معاملے میں اپنا سخت احتجاج درج کراتے ہوئے اعلانیہ طور پر کہا کہ فوجیوں کے سر کاٹنے جیسی کسی بربریت آمیز کارروائی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ فوج کے سربراہ جنرل بکرم سنگھ نے پاکستان کو براہ راست وارننگ دے دی اور کہا کہ اس کی کرتوت معافی کے لائق نہیں۔ اگر مستقبل میں ایسی کوئی حرکت سامنے آئی تو بھارت صرف جوابی کارروائی ہی نہیں کرے گا بلکہ جارحانہ رویہ اپنائے گا۔ پاکستانی فوج سرحد پر بربریت میں اکثر آتنک وادیوں کا استعمال کرتی ہے۔ جنرل نے پیر کو صاف کیا کہ ہندوستانی فوج پاکستان کی حرکتوں و کرتوت کو اچھی طرح سمجھتی ہے اور مثبت کارروائی کی پالیسی میں اس پہل کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔
جنرل سنگھ نے کہا پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں آتنک وادیوں کے کیمپ پوری طرح سے برقرار ہیں اور لشکر چیف حافظ سعید کی موجودگی کئی بات دیکھی گئی ہے۔ فلیگ میٹنگ میں بھی برگیڈیئر نے شہید ہیمراج کے سر کو پاکستان سے دینے کی مانگ کی تھی لیکن پاکستانی فوج خاموش رہی۔ پاکستانی نمائندوں نے بھارتیہ فوج کے سبھی دلائل کو سرے سے مسترد کردیا۔ الٹے بھارت پر ہی جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام لگایا اور معاملے کی اقوام متحدہ سے جانچ کرانے کی مانگ کرڈالی۔ اس لئے اہم بتاتے ہیں کے اصل میں کیا ہوگیا ہماری ملٹری انٹیلی جنس بیورو کو۔ ملی اطلاعات کے مطابق پاکستان کی اسپیشل سروس گروپ جس میں 653 مجاہدین ریجمنٹ میں لشکر طیبہ اور تحریک طالبان کے آتنکیوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔جیسے ہی امریکی فوج ہٹے گی طالبان آتنکیوں کو حافظ سعید بھارتیہ فوج کی چوکیوں پر تعینات کرے گا۔ یہ خلاصہ پاکستان کے فوجی افسروں اور لشکرکے چیف کے درمیان بات چیت میں ہوا ہے۔ ایم آئی بی نے اس بات چیت کو پکڑا ہے۔ بھارت نے اپنے تمام سفارتکاروں کو یہ ہدایت دی ہے کہ وہ ڈپلومیٹک سطح پر پاکستان کا چہرہ بے نقاب کرے۔ ایسے میں بھارت نے نہ صرف امریکہ ،انگلینڈ اور یوروپ کے ممالک کے ساتھ ساتھ روس اور چین کو بھی آگاہ کیا ہے کہ ایشیائی برصغیر میں پاکستان ایک بار پھر شورش پھیلانا چاہتا ہے۔ جو ہوا وہ غیر انسانی تھا، بربریت کی علامت تھا لیکن ایک سوال ہم بھارتیہ فوج سے بھی پوچھنا چاہتے ہیں۔ بھارتیہ فوجیوں سے بھی میندھر سیکٹر میں 8 جنوری کو بھاری بھول ہوئی تھی۔گشت لگاتے وقت7 فوجیوں میں سے صرف 2 مارے گئے باقی فوجی کہاں پھنس گئے؟ انہوں نے جوابی کارروائی کیوں نہیں کی تھی؟ فوج کے سربراہ جنرل بکرم سنگھ نے مان لیا ہے کہ کنٹرول لائن پر گشت کے دوران ممکنہ طور پر تکنیکی بھول ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرحد پر تعینات فوجیوں سے امید کی جاتی ہے کہ وہ چست اور حرکت میں رہیں۔ جنرل کے مطابق ایل او سی پر ان کے فوجیوں نے جو قدم اٹھایا وہ بہادری بھرا تھا اور انہیں اس پر فخرہے۔ بکرم سنگھ نے کہا یہ بھی ممکن ہے گشت لگاتے وقت فوجیوں نے غلط وقت پر جارحانہ رویہ اپنایا ہوگا اور پاکستانی فوج کو سر کاٹنے جیسی بربریت کا موقعہ مل گیا مگر اس کا مطلب یہ نہیں ان کا جارحانہ ہونے کا فیصلہ غلط تھا۔ وہ ایک خاص حالت میں لیا گیا فیصلہ تھا۔ فوج اندرونی سطح پر اس کی جانچ کررہی ہے۔ اس پوری کارروائی میں خاص توجہ رکھنے کی ضرورت ہے کہ فوجیوں کے حوصلے پر اس کا الٹا اثر نہ پڑے۔ جہاں تک بھارت سرکار کے رویئے کا سوال ہے فوج کے سربراہ اور ایئر فورس کے سربراہ نے جو وارننگ بھرے بیان دئے ہیں۔
یہ سرکار سے منظوری لینے کے بعد دئے ہوں گے لیکن اس سے آگے بڑھنے کے لئے سرکار کو لگتا ہے کہ وہ ابھی تیار نہیں ہے وہ فی الحال ماحول کو ٹھنڈا کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ پاکستان کی حکمت عملی صاف ہے وہ بات چیت کی رسمی ادائیگی میں بھارت کو مصروف رکھنا چاہتا ہے۔ وہ اپنے یہاں حالات اور فوج کے نظریئے کے پیش نظر نہیں لگتا کہ صحیح میں وہ کشیدگی میں کمی لانا چاہتا ہے یا کرنے کا خواہشمند ہے۔ یہ سب اچانک نہیں ہوا پاکستان کے سکریٹری اور وزیر بھارت کے ساتھ بات چیت کرنے کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ وزیر اعظم کو پاکستان آنے کی دعوت دی جاتی رہی ہے۔ یہ سب کرکے پاکستان نے 2012ء سال گزار دیا اور خود پر چل رہے دباؤ کو کم کرگیا۔ دراصل اس کی نیت پر ہر حال میں کشمیر مسئلے کو اقوام متحدہ میں اٹھانے کی ہے۔ اس وقت اس پوزیشن میں بھی ہے ۔یہ تو ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم ان سب باتوں کا کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ صاف ہے پاکستان گھما پھرا کر کسی بھی طرح سے معاملے میں تیسرے فریق کی دخل اندازی چاہتا ہے یہ دوطرفہ معاملہ ہے بھارت سرکار نے صاف کردیا ہے وہ کسی بھی حالت میں اس معاملے کو عالمی رنگ نہیں لینے دے گا۔ پاکستانی فوجیوں کے سر کاٹنے کے واقعے کو لیکر دیش بھر میں فوج میں ناراضگی کا ماحول ہے۔ یہ پہلی بار نہیں کے پاکستانی فوج نے یہ بربریت آمیز برتاؤ کیا ہے۔ پچھلے 13 سالوں میں ایسی تین وارداتیں ہوچکی ہیں۔ ان میں 4 فوجی اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ فوجی ہیڈ کوارٹر کے ذرائع کے مطابق سر کاٹنے کی پہلی واردات 2000 ء میں سامنے آئی تھی۔اس کے بعد 2012 ء میں ہوئی ایک واردات میں 2 فوجیوں کے ساتھ غیر انسانی حرکت کی گئی تھی۔ سارا دیش بھارتیہ ردعمل کا انتظار کررہا ہے۔
(انل نریندر)
pakistan our india main aysay aanasar hain jo kay dono mulkoon kay darmeyan aman nahi daykhna chatay, warna dono mumlek kay awam to aman chatay hain
جواب دیںحذف کریں