گڈکری کی غیر دوراندیشی اور موقعہ پرست پالیسی سے جھارکھنڈ میں یہ دردشا ہوئی

بھاجپا اور جھارکھنڈ مکتی مورچہ کا میل پوری طرح سے اقتدار کے لئے ہوا تھا اور اس بے اصولی اور پالیسیوں کے سمجھوتے کا یہ ہی حشر ہونا تھا۔ جے ایم ایم اور بھاجپا کے درمیان پچھلے کئی دنوں سے تکرار جاری تھی۔ جے ایم ایم نیتا اور ارجن منڈا سرکار میں نائب وزیر اعلی رہے ہیمنت سورین نے حمایت واپسی کی کئی وجوہات گنائی ہیں۔ دراصل یہ ایک محض یا سب سے بڑا اشو اقتدار کے بٹوارے کا رہا۔ سورین کا کہنا ہے اتحاد اس بنیاد پرہوا تھا کہ دونوں پارٹیاں باری باری سے سرکار سنبھالیں گی۔ ارجن منڈا ستمبر2010ء میں جے ایم ایم کی حمایت سے ریاست کے وزیر اعلی بنے تھے اب سورین کی باری ہے لیکن بھاجپا اس کے لئے تیار نہیں تھی۔ اس نے سرے سے ہی اس بات کو مسترد کردیا کہ دونوں پارٹیوں کے درمیان 28-28 مہینے کا کوئی سمجھوتہ بھی ہوا تھا۔ جب دیش کا موجودہ سیاسی ماحول بھاجپا کے موافق مانا جارہا ہو تب دوریاستوں میں اس کی سرکار گرجائے یا گرنے کے دہانے پر ہو اس کے برے دن ہی کہا جائے گا۔ منڈا سرکار تو گر چکی ہے کرناٹک میں جگدیش شیٹر سرکار کے عدم استحکام میں گھرنے سے اگر کچھ صاف ہے تو وہی کے قومی پارٹی کی شکل میں اس پارٹی کا مستقبل اچھا نہیں لگتا۔ خیال رہے کہ کچھ دن پہلے ہی بھاجپا ہماچل پردیش میں اقتدار گنوا چکی ہے۔ بھاجپا کے نئے نئے بنے قومی صدر نتن گڈکری نے لال کرشن اڈوانی سمیت پارٹی کے سرکردہ لیڈروں کو اعتماد میں لئے بغیر ’’موقعہ پرست، بے بھروسہ اور اقتدار کا لالچی‘‘ جے ایم ایم سے اتحادکر سرکار بنانا طے کرلیا تھا۔ اڈوانی اس سرکار کا زوال یقین جانتے ہوئے حلف برداری میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ تازہ واقعات نے اڈوانی کو بھاجپا کا ہتیشی اور دور اندیش نیتا تو گڈکری کو غیر دوراندیش اور ناتجربہ کار اور پیسے کا لالچی ٹھہرادیا ہے ۔ جنہوں نے محض اپنا پروفائل بڑھانے کی ہڑبڑی میں اس وقت کے حالات کو نظر انداز کیا۔ یہ واقعہ گڈکری کی اگلی میعاد کے فروغ پر ایک موزوں تبصرہ ہونا چاہئے تھا لیکن تازہ خبروں کے مطابق نتن گڈکری کو دوسری میعاد ملنا طے ہے۔ اوپر والا ہی بچائے اس بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کو۔ دوسری طرف کانگریس پھونک پھونک کر جھارکھنڈ میں اپنے قدم بڑھا رہی ہے۔ کانگریس جھارکھنڈ میں نئی متبادل سرکار دینے کے لئے جے ایم ایم سے پھر سے سودے بازی کررہی ہے۔ نئی سرکار میں اسے اہم ذمہ داری مل سکے اس کے لئے اس نے سب سے پہلے وزیر اعلی کے عہدے کے لئے اپنی دعویداری پہلے سے ہی پیش کردی ہے تاکہ اگر اسے یہ مانگ چھوڑنی بھی پڑے تو کم سے کم اسے اچھے من پسند وزارتیں سرکار کے قیام کے بعد ملیں۔ کانگریس کے جھارکھنڈ انچارج جنرل سکریٹری شکیل احمد کا کہنا ہے کیونکہ کانگریس کے پاس خود کے13، آر جے ڈی کے5 اور آسو کے6 ممبر اسمبلی ہیں یا حمایت حاصل ہے جو شیبو سورین کی جے ایم ایم18 کے مقابلے 6 زیادہ ہیں، اس لئے اس عہدے پر ان کا دعوی بنتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر جے ایم ایم نے کانگریس کی تجویز نہیں مانی اور اپنا وزیراعلی بنانے کی ضد نہیں چھوڑی تو ریاست میں چناؤ ہوسکتے ہیں کیونکہ این ڈی اے اور آسوشیبوسورین یا ہیمنت سورین میں سے کسی کا وزیر اعلی بننا منظور نہیں ہوگا اور اگر وقت سے پہلے چناؤ ہوئے تو یہ جے ایم ایم کے فائدے میں نہیں ہوگا اور اس کا فائدہ بھارتیہ جنتا پارٹی اٹھالے گی۔ اصل میں کانگریس جانتی ہے کہ اس کی ممبر شپ کچھ ممبران (81 میں سے20 فیصدی) (13) کے قریب ہیں جو پارٹی لحاظ سے بھی چوتھے نمبر پر ہے۔ ایسے میں اس کی دعویداری سی ایم کے عہدے کے لئے نہیں بنتی۔ ایسے سخت رخ کے پیچھے محض ایک مقصد یہ دکھائی پڑتا ہے کہ دباؤ بنا کر اگر نئی سرکار بنتی ہے تو اسکے ہاتھ ملائی دار وزارت آجائے۔ ویسے ہمیں نہیں لگتا جھارکھنڈ کے موجودہ نمبروں کی بنیاد پر کوئی بھی جوڑ توڑ سے زبردستی بنی سرکار چل پائے۔ امکان اس بات کا ہے کہ ریاست میں اسمبلی معطل کر صدر راج لگا دیا جائے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!