دامنی کی قربانی بیکار نہیں تھی آہستہ آہستہ تبدیلی آنے لگی ہے

6 دسمبر کی رات کو وسنت وہار علاقے میں بدقسمت دامنی عرف انامیکا کی قربانی ضائع نہیں جانے دی جائے گی یہ تصوران ہندوستانیوں نے اسی دن کر لیا تھا۔ ایک مہینے سے زیادہ کا وقت ہوچکا ہے۔ کڑاکے کی سردی میں، بارش میں، اولوں میں آج بھی جنترمنتر پر انصاف کے لئے لو جل رہی ہے۔ پورا دیش ان بہادر لڑکوں کو سلام کرتا ہے۔ انہوں نے پولیس کے ڈنڈے کھائے، پانی کی بوچھاریں جھیلیں لیکن ان کا حوصلہ نہیں گرا۔ مظاہرین کی تعداد بیشک کم ہوگئی ہے لیکن ایک مہینے بعد بھی ان کا حوصلہ بلند ہے۔ جنترمنتر پر22 دسمبر سے مسلسل مظاہرہ کررہے لڑکوں کا کہنا ہے کہ ہمارے اندر اتنی ناراضگی ہے جب تک سسٹم نہیں بدلتا ہماری تحریک جاری رہے گی۔ طالبعلم سدھانشو نے بتایا کہ ہم ایک دوسرے کو نہیں جانتے لیکن متاثرہ کا درد اور پولیس کی ذیاتی ہمیں یہاں کھینچ لاتی ہے۔ جب تک قانون نہیں بنے گا ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ پچھلے ایک مہینے میں جو تبدیلی آئی ہے وہ صحیح سمت میں صحیح قدم ہے۔ راجدھانی میں 5 فاسٹ ٹریک عدالتیں بن چکی ہیں۔ ایک فاسٹ ٹریک عدالت نے تو دو برس پہلے تین سال کی بچی سے بدفعلی اور اس کے قتل کے معاملے کو محض 10 دنوں میں ہی نپٹا کر قصوروار شخص 60 سالہ بھرت سنگھ کو پھانسی کی سزا بھی سنا دی ہے۔ ہم جج وجیندر صاحب کو یہ بدھائی دینا چاہتے ہیں۔ اب پولیس شکایت ملنے پر فوراً ایف آئی آر درج کرنے لگی ہے ۔ عورتوں سے ہوئی کسی بھی ناخوشگوار واردات کی جانکاری سینئر پولیس افسروں کو دیں۔ سبھی180 پولیس تھانوں میں چوبیس گھنٹے مہلا ڈیکس بنادیا گیا ہے۔ دو خاتون پولیس ملازم تعینات کردی گئی ہیں۔ پولیس ڈپٹی کمشنر سطح کے افسران کو دیر رات سڑکوں پر گشت کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ راجدھانی کے ہر حصے میں بیریگیڈ لگاکر گاڑیوں کی جانچ کے احکامات دئے گئے ہیں۔سرحدی تنازعے کو لیکر جھگڑنے والے پولیس ملازم ،خاص کر پی سی آر وین کو سخت ہدایات ہیں۔ اسکول ،کالجوں اور اسٹینڈ پر سادی وردی میں پولیس ملازمین کی تعیناتی کا حکم ہے۔ کالی شیشے لگا کر گاڑی چلا رہے ڈرائیوروں پر دہلی پولیس سخت کارروائی کرتی نظر آئی۔ ایک اچھی تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ سبھی سرکاری ہسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈ اور وہاں کے ڈاکٹروں کو سخت ہدایات دی گئی ہیں کے پہلے متاثرہ لڑکی کا علاج کیا جانا چاہئے اور بعد میں کاغذی کارروائی پر زوردیا جائے اور متاثرہ لڑکیوں کی تکلیف سننے کے لئے مناسب سسٹم بنانے اور قصورواروں کو جلد سے جلد سزا دلانے پر زور دیا جارہا ہے۔ اس کے لئے ایک ہیلپ لائن سروس شروع کی گئی ہے اسے سیدھے وزیر اعلی کے دفتر سے جوڑا گیا ہے۔ متاثرہ لڑکی سیدھے وزیر اعلی سے فریاد کرسکتی ہے۔ دیر رات چلنے والی بسوں کی تعدا بڑھانے کے ساتھ ان میں ہوم گارڈ کی تعیناتی بھی کی گئی ہے۔ آٹو اور ٹیکسی ٹیمپوں کی منمانی پر لگام لگانے کے لئے ٹریفک پولیس نے سخت کارروائی شروع کی ہے۔ جنتا کی ذہنیت بدلنے میں وقت لگے گا بیشک انتظامی قدم اٹھائے گئے ہیں وہ ٹھیک نہیں ہوئے لیکن پھر بھی اس سمت میں صحیح قدم ہیں۔ یہ سب دامنی کی قربانی کی وجہ سے اور جنترمنتر جیسے دھرنوں کی جگہوں پر پورے دیش سے آئے لوگوں کی ناراضگی کے سبب ممکن ہوا ہے۔ بلاتاخیر ابھی راستہ لمبا ہے ڈٹے رہو۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟