ہر خاص و عام کیا پولیس سکیورٹی کا حقدار ہے؟

ویسے دیکھا جائے تو سپریم کورٹ کو یہ سوال پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑنی چاہئے تھی لیکن جب سرکار انتظامیہ لاپرواہ ہوجائے تو پبلک سیفٹی کے لئے عزت مآب عدالت کو پوچھنا ہی پڑا کے ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی سمیت تمام ایسے اشخاص کو بھی پولیس سکیورٹی کیوں دی جارہی ہے جن کی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں ہے؟ جسٹس جی ایس سنگھوی کی سربراہی والی ڈویژن بنچ نے کہا کہ آئینی عہدوں پر بیٹھے لوگوں یا ایسے اشخاص کو جن کی زندگی کو خطرہ ہو، پولیس سکیورٹی فراہم کی جانی چاہئے۔ ججوں نے کہا کہ صدر جمہوریہ ، نائب صدر، وزیر اعظم، لوک سبھا اسپیکر، چیف جسٹس اور آئینی عہدوں پر فائض افراد اور ریاستوں میں ایسے ہی ہم منصب عہدوں پر فائض افراد کو سکیورٹی دی جاسکتی ہے لیکن ہر عام و خاص شخص کو لال بتی کی گاڑی اور سکیورٹی کیوں؟ صورتحال یہ ہے کہ مکھیا اور سرپنچ بھی لال بتی کی گاڑی لیکر گھوم رہے ہیں۔ جج صاحبان نے ریاستوں میں لال بتی کی گاڑیوں کے بیجا استعمال کو لیکر دائر مفاد عامہ کی عرضی پر سماعت کے دوران یہ احکامات دئے۔ ججوں نے کہا آخر سرکار اس سسٹم کو ختم کرنے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کرکے یہ واضح کیوں نہیں کرتی کے لال بتی کون استعمال کرسکتا ہے؟ دہلی پولیس جمعرات کو اس وقت سپریم کورٹ میں ہنسی کا موضوع بن گئی جب اس نے دلیل دی کے سرکار میں بڑے عہدوں پر فائض افراد کو واضح خطرے کے کارن نہیں بلکہ نڈر اور آزاد ہوکر فیصلہ کرنے کی سہولت دینے کے لئے دی جاتی ہے۔ دہلی پولیس نے عدالت میں داخل 8 صفحات کے حلف نامے میں یہ بات کہی۔ پولیس کی اس بے تکی دلیل پر جج صاحبان نے پولیس کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے سوال کیا کے سکیورٹی کے سبب ہمارے فیصلے کیسے نڈر ہوسکتے ہیں؟ کیا یہ افسر کی سمجھ کا پیمانہ ہے؟ یہ یقینی ہی آئی پی ایس افسر ہوگا اور اس نے آئی پی سی اور سی آر پی سی کی دفعہ کے بارے میں پڑھا ہوگا۔ سپریم کورٹ کو اس معاملے میں اس لئے دخل دینا پڑا کیونکہ مرکز اور ریاستی حکومتیں سلامتی وجوہات سے کم اور سیاسی اسباب سے زیادہ منمانی کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ ممبران اور ممبران اسمبلی کو تو چھوڑئیے اثردار لیڈروں یہاں تک بیڈ کریکٹر لوگوں تک کو سکیورٹی ملی ہوئی ہے۔ دراصل آج یہ ایک طرح کا اسٹیٹس سمبل بن گیا ہے۔ میں نے تو ایسے بھی نظارے دیکھیں گے کے سائیکل نیتاچلا رہا ہے اور اس کے پیچھے بندوق دھاری پولیس والا بیٹھا ہے اور یہ سب عام جنتا کی سلامتی کی قیمت پر ہورہا ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جہاں نیتاؤں کو ایسی سکیورٹی دی جاتی ہے؟ اس سے انکار نہیں کے اہم عہدوں پر بیٹھے لوگوں کو سکیورٹی ملنی چاہئے لیکن یہ کام عام آدمی کی سلامتی کی قیمت پر بالکل نہیں ہونا چاہئے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اگر سرپنچ سے لیکر پردھان منتری تک سبھی اہم عہدے والے لوگ خود اپنے آپ کو انتہائی اہم ماننے لگیں گے اور اس ناطے سرکاری سکیورٹی چاہئیں گے تو عام آدمی کی سکیورٹی کا بیڑا غرق ہونا طے ہے۔ چاہئے تو یہ ہے کہ مرکز اور ریاستی سرکاریں سپریم کورٹ کی جانب سے اٹھائے گئے سوالوں پر سنجیدگی سے غور کریں اور انتہائی اہم شخص کون ہے اس کی تشریح کریں اورخطرے کی نویت یا اس کے حالات کے حساب سے سکیورٹی دیں۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟