اندھیر نگری چوپٹ راجہ، ’’ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھاجا‘‘

دیش کی جنتا میں ہائے توبہ مچی ہوئی ہے، لوگ سڑکوں پر اترے ہوئے ہیں، فوج میں بغاوت کی صورتحال بنی ہوئی اور یہ یوپی اے سرکار اور کانگریس کی صحت پر اثر نہیں پڑ رہا ہے۔ دہلی گینگ ریپ کیس میں آج بھی جنتا جنترمنتر پر بیٹھی ہے۔ عدالتیں سخت رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ کمر توڑ مہنگائی کے چلتے سرکار نیا دوز دین کو تیار ہے۔ رہی سہی کثر پونچھ کے مینڈھر سیکٹر میں دو ہندوستانی جوانوں کے پاکستانی فوج کے ذریعے سرقلم نے پوری کردی ہے۔ دکھ کی بات تو یہ ہے یوپی اے سرکار ان کے تھنک ٹینک کو لگتا ہے کہ دیش بھر میں جو بھی تحریکیں چل رہی ہیں ان کے پیچھے درپردہ طاقتوں کا ہاتھ ہے جو اس سرکار اور کانگریس پارٹی کو کمزور کرنا چاہتی ہیں اور ساری تحریک سیاسی ہے۔ سرکار کو یہ اپوزیشن کی سوچی سمجھی چال لگ رہی ہے کہ اسے بدنام کرنے کے لئے پارٹی کے تھنک ٹینک کا یہ ماننا ہے کہ بھلے ہی دکھائی دینے میں ایسا لگ رہا ہو جیسے یہ عام آدمی کا غصہ ہے اور بغیر کسی کے بلاوے پر سڑک پر آرہا ہے، لیکن ایسا نہیں۔ ان سب کے پیچھے ایک سوچی سمجھی حکمت عملی بنا کر ملکی و غیر ملکی طاقتیں ایسا کروارہی ہیں۔ ایک سینئر کانگریسی پالیسی ساز کا کہناکے پارٹی کی سینئر لیڈر شپ اس سے اچھی طرح واقف ہے۔ یہ سب ایک زنجیر کی کڑیاں ہیں جو الگ الگ طرح سے کانگریس سے مخالفت کے نام پر سامنے آرہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے انا ہزارے، پھر بابا رام دیو، اور پھر کیجریوال کرپشن کا جھنجھنا بجا کر سڑک پر اتر آئے۔ اسی کے برابر پہلے کرناٹک میں ، پھر اترپردیش اور آندھرا پردیش اب مہاراشٹر میں فرقہ واریت کی چنگاری بھڑکائی جارہی ہے۔ دیش کی عوام کو پرکھا جارہا ہے کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ کچھ غیر ملکی طاقتیں ملک کی اندرونی طاقتوں کے ساتھ مل کر یہ سب کھیل کھیل رہی ہیں۔ انہوں نے اس بات کا اشارہ بھی کیا کے جلد ہی مرکز اور ریاستی حکومتیں اس بات کی پڑتال اور ثبوت اکٹھا کریں گی۔ وہ مشہور کہاوت یاد آتی ہے ’روچ جل رہا ہے اور نیرو سورہے ہیں‘ یہ آج اس سرکار اور کانگریس پارٹی پر فٹ بیٹھتی ہے۔ معاملہ چاہے آبروریزی، قتل کے ہوں چاہے مہنگائی کے ہوں ، چاہے قانون و نظام یا دیش کی ساکھ کا ہو ، ہر مورچے پر یہ سرکار ناکام دکھائی پڑتی ہے۔ بچیوں سے آبروریزی کا معاملہ کم نہیں رہا۔ جنتا کی ناراضگی کو سمجھنے کی بجائے اسے سیاسی رنگ دیا جارہا ہے۔ سال شروع ہوتے ہی عوام کو اس سرکار نے مہنگائی کی طرف ایک خوراک کے طور پر تحفے میں دیا ہے۔ سی این جی کے داموں میں 1.55 پیسے اور این سی آر میں 1.80 پیسے فی لیٹر کی شکل میں اضافہ کیا ہے۔ریل بجٹ پیش ہونے سے قریب ڈیڑھ مہینے پہلے ہی حکومت نے بدھوار کو اچانک دوسرے درجے سے لیکر ایئر کنڈیشن درجے تک کے کرائے میں اضافہ کردیا ہے۔ صفائی دی جارہی ہے کہ دس سال بعد یہ کرائے بڑھائے جارہے ہیں۔ یہ بات تو ہمیں سمجھ میں آتی ہے لیکن عام آدمی جس دوسرے درجے سے سفر کرتا ہے اس میں اضافے سے بچنے کی کوشش ہونی چاہئے۔ بیشک فرسٹ کلاس کے مسافروں سے یہ اضافہ کور کرلیتے۔ سال2012ء جاتے جاتے دہلی کے وسنت وہار میں آبروریزی کے واقعے سے کانگریس کے سیاسی سروکارو کی نیند ٹوٹنی چاہئے۔سڑکوں پر اس واردات کے خلاف اتری بھیڑ نہ تو کسی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتی ہے اور نہ ہی کسی غیر ملکی طاقت کے اشارے پر سڑکوں پر اتری ہے۔ آج پورے دیش میں خاص کر عورتوں میں اتنی عدم سلامتی کا احساس ہے کہ جنتا کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ اپنا غصہ کس طرح ظاہرکریں؟ اس لئے وہ سڑکوں پر اتر آئے ہیں کہ شاید اب تو سرکار جاگے گی۔ اگر مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے تو اس میں غیر ملکی ہاتھ کہاں سے آگیا؟ دکھ تو اس بات کا ہے کے آج یوپی اے سرکار نے تو دیش کے اندر سلامتی کا مسئلہ کھڑا کردیا ہے اور سرحد پر سرکار سوچتی ہے کیش سبسڈی کے بہانے جنتا کے گھر پیسے پہنچاکر سارے پاپ ڈھک جائیں گے تو اس میں ہمیں شبہ ہے۔ وقت رہتے اگر یہ حکومت اور کانگریس پارٹی نہ بیدار ہوئی تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ جنتا کے صبر کا اور امتحان نہ لے یہ ہی ان کے لئے بہتر ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!