گؤہتیا روکنے کیلئے مسلم سماج کی پہل


گؤ ہتیاپر پابندی لگانے کے لئے ہمارا سادھو سماج تو اکثر جدوجہد کرتا ہی رہا ہے لیکن جب ہمارے مسلمان بھائی اس کا بیڑا اٹھائیں تو اچھا لگتا ہے اور ان کا شکرگذار ہونا چاہئے۔ ایسا ہی ایک واقعہ سہارنپور میں ہوا۔ سہارنپور ضلع میں روزانہ بڑھ رہے گائے کاٹنے کے واقعات سے پریشان دیوبند کے بنہیڑا گاؤں کے مسلم سماج کے لوگوں نے حال ہی میں وہاں پنچایت بلا کر گائے کاٹنے والوں کے خلاف کئے گئے فیصلے پر عمل کرنا شروع کردیا ہے۔دیہاتیوں نے گرام پردھان راؤ افضل کی رہنمائی میں گاؤں میں ہی گائے کشی کے لئے لے جارہے دو اسمگلروں کو گائے کے ساتھ دبوچ لیا اور ان کی زبردست دھنائی کرتے ہوئے پولیس کے حوالے کردیا۔ پکڑے گئے 9 اسمگلروں نے پوچھ تاچھ کے دوران اپنا نام جانی ولد باؤ ، گلاب ولد ہریا، باشندہ کپوری گووند پور بتایا ہے۔ گائیوں کو وہ بھاما پور گاؤں سے خرید موضع بنہیڑا میں بیچنے کے لئے لائے تھے اور گاؤں کے ہی ایک شخص نے ان کو بیچنے کے لئے سودا بھی کرلیا تھا لیکن پنچایت کے فیصلے کے پیش نظر اس شخص نے فوراً اس کی اطلاع دیہاتیوں کو دے دی جس سے وہ پکڑے گئے۔ گرام پردھان راؤ افضل، راؤ آشورانا، راؤ شفاقت، راؤ اسلم، راؤ نیک محمد، ڈاکٹر فرمان علی، کلبیر ،دیانند، سریندر پردھان اور راؤ غلام جہاں وغیرہ نے بتایا کہ یہ دونوں اسمگلر گاؤں کے جس شخص کو گائے بیچنے آئے تھے اس نے جرمانے کے ڈر سے انہیں اس کی خبر دے دی۔جس کے بعد انہیں دبوچ لیا گیا۔ ضلع میں مسلسل بڑھ رہی گائیوں کی کٹائی کے واقعات پر مکمل پابندی لگانے کے مقصد سے حال ہی میں موضع بنہیڑا میں 20 گاؤں کے لوگوں کی مہا پنچایت میں اتفاق رائے سے یہ فیصلہ لیاگیا اگر کوئی گائے کی قربانی کرتا پکڑا گیا تو اس کی پٹائی کے ساتھ ساتھ اس پر 10 ہزار روپے جرمانہ بھی لگایا جائے گا۔ مہا پنچایت کے لوگوں نے مسلمانوں کو اپنی گائے نہ بیچنے کی اپیل بھی کی تھی۔ ادھر موضع بنہیڑا کے بعد اب علاقے کے گھاتمپور کے مسلمانوں نے بھی پنچایت بلا کر گائیوں کی قربانی کے خلاف اپنا مورچہ کھولتے ہوئے ان کا سماجی بائیکاٹ کرنے اور گائیوں کی اسمگلنگ کو پکڑوانے میں پولیس کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔گاؤں سے مدرسے میں سرپنچ ایوب حسن کی صدارت میں ہوئی پنچایت میں فیصلہ لیا گیا کہ مسلم سماج کے لوگوں کو گائے کشی روکنے کے ساتھ ساتھ گائے کشی کرنے والوں کا پتہ چلنے پر اس کی اطلاع فوراً پولیس کو دینے کا کام کریں گے۔ پنچایب میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص گؤ کشی کرنے والے کی مدد کرے گا تو اس کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے گا۔ جہاں ہم مسلم سماج میں گؤ کشی روکنے کی کوششوں کی تعریف کرتے ہیں وہیں یہ بھی کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ سڑکوں پر آوارہ گائے کو صحیح او محفوظ رکھنے کے لئے انہیں بھر پیٹ کھانے کیلئے چارہ دینے کا انتظام کریں یا کررہے ہیں کیا ہمارا فرض نہیں بنتا کہ ہم بھی گؤ ماتا کی حفاظت میں اپنا یوگدان دیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!