الہ آباد ہائی کورٹ نے دی بہن جی کو بڑی راحت


پیر کا دن بسپا چیف مایاوتی کے لئے انتہائی خوشی کی خبر لے کر آیا۔پیر کو ان کو ایک بڑی راحت مل گئی۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے سرخیوں میں چھائے تاج کوریڈور معاملے میں بہن جی کے خلاف دائر آدھی درجن عرضیوں کو خارج کردیا۔ قابل ذکر ہے کہ 2002ء میں اس وقت کی وزیر اعلی مایاوتی پر الزام لگا تھا کہ انہوں نے آگرہ میں واقع تاج محل کے پاس غلط طریقے سے کئی تعمیرات کرنے کی اجازت دی تھی۔ اس معاملے میں175 کروڑ روپے کی مالی دھاندلی کا الزام بھی لگا تھا۔اس معاملے کو لیکر 2005 ء میں سی بی آئی نے مایاوتی کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔ اس معاملے میں بہن جی کے قریبی ساتھی نسیم الدین صدیقی بھی زد میں آگئے تھے۔ 2007ء میں اترپردیش کے گورنر ٹی راجیشور نے مایاوتی کے خلاف مقدمہ چلانے کی اجازت دینے سے انکا کردیا تھا۔ انہوں نے اپنے حکم میں لکھا تھا کہ اس معاملے میں مقدمہ چلانے لائق حقائق نہیں دکھائی پڑتے۔ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا تھا۔ اس نے یہ ہی کہا تھا کہ عرضی گذار ہائی کورٹ میں اپنی درخواست لگائے۔2009ء میں لوک سبھا چناؤ کے دور میں 6-7 لوگوں نے ہائی کورٹ میں مایاوتی کے خلاف مقدمہ چلانے کی اجازت دئے جانے کے لئے عرضیا ں دائر کی تھیں لیکن پیر کو ہائی کورٹ نے ان سب کو مسترد کردیا۔ 
جسٹس امتیاز مرتضیٰ ، جسٹس اشونی کمار سنگھوی کی ڈویژن بنچ نے مقدمہ چلائے جانے کی اجازت نہ ملنے پر مایاوتی اور نسیم الدین کو کلین چٹ دے دی۔ سابق وزیر اعلی کی جانب سے سینئر وکیل سنتوش مشرا نے بنچ کے سامنے بحث کی تھی۔ فیصلہ آنے کے بعد سنتوش مشرا نے میڈیا سے کہا کچھ لوگ سیاسی اسباب کے سبب جان بوجھ کر بسپا سپریمو مایاوتی کو بدنام کرنے کے لئے پھنسانا چاہتے تھے۔ میڈیا میں بھی غلط ڈھنگ سے اسے175 کروڑ روپے کا گھوٹالہ کہا گیا جبکہ جانچ میں پایا گیا کہ مایا حکومت نے تاج کوریڈور تعمیر کے لئے محض17 کروڑ ہی جاری کئے تھے۔ ایسے میں اربوں روپے کا گھوٹالہ کیسے کہا جاسکتا ہے۔ مشرا نے یہ بھی جانکاری دی کہ عدالت کے سامنے یہ بھی سچائی آئی کہ تاج کوریڈور کی فائل میں وزیر اعلی کے طور پر مایاوتی نے دستخط نہیں کئے تھے اور اس کی توثیق وزیر اعلی کے اس وقت کے سکریٹری پی ایل پنیا نے کی تھی، جو اب کانگریس کے ایم پی ہیں۔ مشرا نے دعوی کیا کہ لکھنؤ بنچ کے فیصلے سے مایاوتی کے خلاف سیاسی سازش کرنے والوں کا جھوٹ سامنے آگیا ہے۔ حالانکہ پیر کو کچھ عرضی گذاروں نے اشارہ دیا ہے کہ وہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں ضرور جائیں گے۔ 
عدالت کے فیصلے کے بعد لکھنؤ سے لیکر دہلی تک کئی مقامات پر بسپا حمایتیوں نے پٹاخے چھوڑ کر خوشی منائی اور خوشی منائیں بھی کیوں نہ؟ بہن جی کو بڑی راحت ملنے کے ساتھ ساتھ جو تلوار کچھ لوگوں نے ان پر لٹکائی ہوئی تھی اس سے بھی کچھ حد تک نجات ملے گی لیکن بہن جی کی مشکلیں ابھی پوری طرح سے ختم نہیں ہوئیں۔ اس معاملے میں ایک بار پھر دکھایا گیا کہ سیاسی مفادات کے لئے حریفوں کو حیران پریشان کرنے کے لئے حکمراں فریق کس ڈھنگ سے سی بی آئی کا بیجا استعمال کرتا ہے۔ بہرحال تاج کوریڈور معاملے میں تو مایاوتی کو فوری راحت ضرور مل گئی ہے لیکن ان کی پریشانی کم ہوتی نہیں دکھائی دے رہی ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے پہلے ہی سی بی آئی کو ان کے خلاف اثاثے سے زیادہ پراپرٹی جمع کرنے کے معاملے کی جانچ کی اجازت دے رکھی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!