کرشمائی اوبامہ نے اپنا جلوہ پھر دکھایا


براک اوبامہ نے بدھ کے روز اپنے ریپبلکن پارٹی حریف مٹ رومنی کے خلاف شاندار جیت درج کی ہے اور اقتصادی تشویشات کے درمیان دوسری بار امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے۔ بھارت کے ساتھ مضبوط تعلقات کے حمایتی اوبامہ پہلے سیاہ فام امریکی ہیں جو وائٹ ہاؤس تک پہنچے تھے۔ وہ انتہائی تلخ اور مہنگی چناؤ مہم کے بعد آسانی سے جیت حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ سخت مقابلے میں کافی کم ووٹوں سے ہونے والے فیصلے کے قبل از وقت جائزوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے اوبامہ کو ورجینیا، مشیگن، وسکانسن، کولارائیڈو، لوبا، اوہیو اور نیوہیمپ شائر میں پہلے مرحلے کے مقابلے کے بعد کافی ووٹ ملے۔ انہیں 535 الیکٹرول کالج میں سے303 ووٹ ملے جبکہ رومنی کو محض206 ہی ووٹ مل سکے۔ چناؤ سے پہلے آئے جائزوں میں کانٹے کی ٹکر بتائی جارہی تھی۔ امریکی میگزین والااسٹریٹ جنرل نے تو پولنگ ہونے سے پہلے ہی پیشگوئی کردی تھی کہ مٹ رومنی جیت رہے ہیں۔خود مٹ رومنی نے اپنی جیت کی تقریر بھی تیار کرلی تھی لیکن جب یہ فیصلہ آیا کہ اوہیونے براک اوبامہ کو چناہے، تب پاسا پلٹنا شروع ہوگیا۔ ٹھیک ایک منٹ کے اندر پوری دنیا جان گئی کہ51 سال براک حسین اوبامہ اب چار سال کے لئے پھر سے وائٹ ہاؤس اور دنیا کے سب سے اہم ترین ملک کا تاج سنبھالیں گے۔ ریپبلکن امیدوار مٹ رومنی کے ساتھ اس قریبی مقابلے میں بازی انہی کی ریاستوں نے پلٹ دی جنہیں جیت ہار طے کرنی تھی لیکن اوہیو، فلوریڈا، ورجینیا کے چناؤ میں ہار جیت صرف ایک دو فیصد ووٹ کے فرق سے ہوئی۔ مقبولیت کے ووٹ بھی اوبامہ کی بڑھت ایک فیصدی رہی۔ براک اوبامہ کی یہ دوسری جیت افریقی ۔لاطینی امریکہ، ایشیائی شہری گورے درمیانے طبقے کے ووٹ سے آئی۔امریکی سیاست کے روایت کے مطابق بوسٹن میں رومنی نے ہار قبول کرلی تھی اور اوبامہ کو مبارکباد دی۔ ہارنے کے بعد مٹ رومنی نے دیش کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ایک پیغام میں کہا ’’دیش نے کسی اور لیڈر کو چنا ہے اور میں اپنی بیوی اور آپ سب کے ساتھ مل کر نئے صدر اور امریکہ کے لئے دعا کرتاہوں، دیش ایک مشکل دور سے گذر رہا ہے۔ یہ وقت پارٹی لائن کے مفادات اور سیاسی نعروں کا نہیں ، میں امریکہ میں بھروسہ رکھتا ہوں، امریکی عوام میں بھروسہ رکھتا ہوں، میں نے اس لئے چناؤ لڑا کیونکہ میں امریکہ کے لئے فکر مند ہوں۔ اب چناؤ ختم ہوگئے ہیں لیکن ہمارے اصول ابھی برقرار ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ہمارے اصول ہی ہمارے لئے راہ عمل ہوں گے۔‘‘ 
امریکہ میں صدارتی چناؤ کو لیکر کانٹے کی ٹکر میں دراصل اوبامہ شروع سے ہی فائدے میں دکھائی دے رہے تھے۔ فائدہ یہ تھا کہ وہ امریکہ کے موجود صدر ہیں اور امریکی عوام اپنے کمانڈر انچیف کو ہٹانے کیلئے تاریخی طور سے مایوس رہی ہے۔ووٹر کبھی کبھی کسی اہم شخصیت پر داؤ کھیلتے ہیں اور اس کے لئے ووٹروں کو راضی کرنا ریپبلکن امیدوار مٹ رومنی کے لئے ایک مشکل کام رہا۔ رومنی کو ایک ایسے صدر کے خلاف لڑائی لڑنے تھی جو خراب امریکی معیشت کے باوجود مقبول بنا ہوا تھا۔ حقیقت میں اگر ہم امریکی صدارتی چناؤ پر نظر ڈالیں تو دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سے اب تک صرف تین صدور کو ہی چناؤ میں ہار ملی ہے۔ یہ تینوں صدر ہیں رونالڈ ریگن، جمی گارٹر(1980) ، جارج ایچ ڈبلیو بش(1992)، اس میں سے دو کے پاس ویسے بھی کوئی مینڈیٹ نہیں تھا۔ کوئی صدر ریچرڈ نکسن کے ماتحت نائب صدر تھے اور نکسن کے استعفے کے بعد وہ صدر بن گئے۔ وہ کبھی مینڈیٹ کا مقابلہ نہیں کرپائے کیونکہ انہوں نے قومیت کے لئے کبھی کوئی چناوی عمل کامقابلہ نہیں کیا۔ سابق نائب صدر جارج ایچ ڈبلیو بش اپنے سابق باس صدر رونالڈ ریگن کے حمایتیوں پر منحصر تھے اور یہ ان کی بدقسمتی تھی کہ انہیں کرشمائی بل کلنٹن کا ایسے وقت میں سامناکرنا پڑا جب سرد جنگ کا خاتمہ ہوا ہی تھا اور ایک نئی معیشت میں ٹیکنالوجی سیکٹر کی شروعات ہوئی تھی۔ صرف جمی کارٹر ہی ایک واحد ایسے صدر تھے جن کے پاس حقیقت میں حمایت کی بنیاد تھی۔ لیکن رونالڈ ریگن کے ہاتھوں وہ آخر کار ہار گئے جو جنگ کے بعد سب سے کرشمائی صدر تھے۔اوبامہ نے نہ تو جمی کارٹر ،نہ جارج بش یا گرالڈفورڈ کا مقابلہ کیا۔اوبامہ کسی سابق باس کے بل پر کبھی منتخب نہیں ہوئے۔ وہ ایک کرشمائی اور ایک اچھے مقرر ہیں اور تمام امریکیوں کے مسلسل پسندیدہ بنے ہوئے ہیں۔ ایسے میں انہیں ہرانا اتنا آسان نہیں تھا۔ ہم صدر براک اوبامہ کو مبارکباد دیتے ہیں اور امید کرتے ہیں بھارت اور امریکہ کے آپس میں رشتے اور مضبوط ہوں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟