یہ گینگ آف ناگپور بھاجپا کو چلنے نہیں دے گا


نتن گڈکری معاملے کو لیکر آر ایس ایس اور بھاجپا کی اندرونی کھینچ تان ٹکراؤ کی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ دراصل اشو یہ نہیں رہا کہ گڈکری قصوروار ہیں یا نہیں ، انہیں استعفیٰ دے دینا چاہئے یا نہیں۔ اشو یہ ہے کہ آر ایس ایس ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ایک آزاد سیاسی پارٹی کی طرح چلنے بھی دے گی یا نہیں؟ اس سلسلے میں مجھے ایک پرانی کہاوت یاد آرہی ہے۔ کافی وقت پہلے کی بات ہے کہ سنگھ کے چیف شاید وہ گوروگولویکر تھے، نے کہا تھا کہ بھاجپا سنگھ کے لئے گاجر کی پنگی ہے۔ جب تک بجے بجاؤ اور نہ بجے تو کھا جاؤ۔ آج ٹھیک یہ ہی حالت بھاجپا اور سنگھ کے درمیان نتن گڈکری کو لیکر دکھائی پڑتی ہے۔ پارٹی پر ایک بار پھر سنکٹ دکھائی پڑنے لگا ہے اس کے لئے وہ کسی اور کو قصوروار نہیں ٹھہرا سکتی۔ موجودہ حالات میں سیاسی طور سے گڈکری کا بچاؤ کرنا کتنا مشکل ہوگیا ہے یہ اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ان کے ایک بے تکے بیان نے پارٹی کے لئے بونڈر کھڑا کردیا ہے۔ پہلے محض رام جیٹھ ملانی مخالفت کررہے تھے لیکن اب تو بھاجپا میں کھلی بغاوت دکھائی پڑتی ہے۔ بھاجپا لیڈر شپ کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ کانگریس نہیں ہے جہاں گاندھی پریوار کا فیصلہ آخری ہوتا ہے۔ یہاں سنگھ کا فیصلہ آخری ہوتا ہے۔ سبھی تو الزامات کے باوجود آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت، نتن گڈکری کو زبردستی کلین چٹ دینے پرتلے ہوئے ہیں۔ اگرچہ سنگھ کا کوئی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ مالی تکنیک کی بنیاد پر یہ ثابت کردے کے نتن گڈکری نے کوئی مالی گڑ بڑی نہیں کی ہے تو اسکا مطلب یہ بالکل نہیں ہے کہ گڈکری پاک صاف ثابت ہوگئے ہیں۔ مالی مبصرین تکنیکی بنیاد پر کارپوریٹ گڑبڑیاں نکالتے و چھپاتے ہیں جبکہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بیلنس شیٹ بنانے کے لئے کیسے کیسے ہتھکنڈے اپناتے ہیں یہ سب کو پتہ ہے، اس لئے سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر گڈکری کا کھاتہ صحیح ہے تو وہ ان کی سرکاری ایجنسیوں کی جانچ رپورٹ کا انتظارکرنے سے کیوں گھبراتے ہیں۔اگر گڈکری اور آر ایس ایس میں اتنی ہی خود اعتمادی ہوتی تو اسے خود صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے کر جانچ ایجنسیوں کی رپورٹ کا انتظار کرنا چاہئے تھا۔ آخر یہ ہی الزام تو بھاجپا اور آر ایس ایس ملزم کانگریسی لیڈروں پر لگاتے آئے ہیں۔ ہمیں شری لال کرشن اڈوانی، جسونت سنگھ، یشونت سنہا کی مشکل سمجھ سکتے ہیں۔ بھاجپا لیڈرشپ نے پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں کوئلہ بلاک الاٹمنٹ کو لیکر رسوئی گیس اور ہیرالڈ ہاؤس تنازعہ اور رابرٹ واڈرا معاملے اٹھانے کی زبردست تیاری کررکھی تھی۔ پارٹی کے نیتاؤں نے جگہ جگہ اس کا اعلان بھی کیا ہے مگر اب گڈکری کے خلاف بنے ماحول سے اپوزیشن کے حملوں کی دھار خود کند پڑ سکتی ہے کیونکہ گڈکری کے خلاف پارٹی کے اندر بھی بغاوت چھڑ گئی ہے لہٰذا پارٹی کی حالت اور کمزور ہوئی ہے۔
ذرائع کی مانیں تو کانگریس پارٹی بھی نہیں چاہتی کہ پارلیمنٹ اجلاس سے پہلے گڈکری عہدہ چھوڑیں۔ یوپی اے سرکار کام کاج اور ساکھ بدلنے کے لحاظ سے پارلیمنٹ کے اجلاس کو لیکر کافی امیدیں لگائے ہوئے ہے۔ سرکار کے حکمت عملی ساز ہر حال میں سیشن کو کامیاب بنانا چاہتے ہیں تاکہ بجٹ اجلاس تک ماحول کچھ بہتر ہوسکے۔ کیبنٹ میں توسیع کا بھی یہی مقصد ہے۔ 
یہ تو اب صاف ہوچکا ہے کہ نتن گڈکری کو سنگھ کا خاص آشیرواد حاصل ہے۔ ناگپور کی خاص ہدایت کے چلتے ہی مہاراشٹر کے علاقائی سطح کے لیڈر گڈکری اچانک پارٹی کے سینئر عہدے پر تین سال پہلے بٹھا دئے گئے تھے ۔ ان کے طریقہ کار کو لیکر پارٹی کے اندر پہلے دن سے ہی جھگڑا تھا۔ پھر بھی سنگھ کی خواہش کو دیکھ کر انہیں صدر کے طور پر دوسری میعاد دینے کی تیاری بھی پوری ہوچکی ہے۔ اس کے لئے پارٹی نے پچھلے دنوں اپنے آئین میں ضروری ترمیم تک کر ڈالی تھی تاکہ گڈکری کے راستے کی یہ تکنیکی پریشانی دور ہوجائے۔ جنتا اکثر یہ سوال پوچھتی ہے کہ بھاجپا۔ کانگریس کی اتنی قابل رحم حالت ہونے کے باوجود اپنے آپ کو ایک متبادل کے طور پر پیش کیوں نہیں کرپاتی؟ موجودہ ماحول میں آج کوئی بھی یہ کہنے کو تیار نہیں ’بھاجپا کو لاؤ دیش بچاؤ‘ آخر کیوں؟ اس کی میری رائے میں ایک بہت بڑی وجہ ہے سنگھ کی دخل اندازی۔ سنگھ ۔بھاجپا کو چلنے نہیں دیتا۔ کم سے کم ایک سیاسی پارٹی کے ڈھنگ سے نہیں تبھی تو ایک صنعت کارکا اس بے شرمی سے بچاؤ کیا جارہا ہے۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ سنگھ بھی اب لالچ میں پڑ گیا ہے اور گڈکری اس کاذریعہ بن گئے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ 6 ریاستوں میں شاندار حکومت چلانے کے باوجودبھاجپا آج کانگریس کا متبادل نہیں بن پا رہی ہے۔ بلاشبہ الزام لگانے سے محض گڈکری یا کوئی قصوروار نہیں ہوسکتا لیکن آپ کس کس کو سمجھائیں گے گڈکری کے پورتی گروپ کو لیکر جو تمام الزامات ان پر لگ رہے ہیں وہ بے بنیاد ہیں؟ اخلاقیات کا تقاضہ تو یہ کہتا ہے کہ سیاست کے اعلی عہدوں پر بیٹھے لوگ سنجیدگی سے الزام لگانے کے باوجود بے قصوروثابت ہونے تک اپنا عہدہ چھوڑ دیتے ہیں۔ بھاجپا میں اس کی روایات بھی ہے۔ خود لال کرشن اڈوانی نے حوالہ کانڈ میں نام آنے پر ایسا ہی کیا تھا۔ مدن لال کھرانہ، اوبامہ بھارتی نے بھی یہ ہی کیا تھا۔ اس کھینچ تان میں سنگھ بے نقاب ہوگیا ہے۔ سنگھ کے دباؤ میں سشما سوراج، ارون جیٹلی جیسے بڑبولے لیڈر بھاجپا نیتا میدان میں اترے لیکن اڈوانی نے ان میں شامل نہ ہوکر اپنی مخالفت جتا دی تھی۔ یہ ہی نہیں سنگھ کا نظریاتی چہرہ بھی سامنے آگیا ہے۔ 
آخر ایسی کیا وجہ تھی کہ آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت کو گڈکری کو بچانے کے لئے خود میدان میں کودنا پڑا؟ آر ایس ایس نے تو ایسا پہلے کبھی نہیں کیا؟ ہمارا خیال تو اب یہ ہے کہ بھاجپا کو اگر بطور ایک سیاسی پارٹی آگے چلنا ہے تو آر ایس ایس کی دخل اندازی پوری طرح سے ختم کرنی ہوگی۔ آر ایس ایس کا قیام سیاست کرنے کے لئے نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ کام کرے جس کے لئے وہ اپنے وجود میں آئی تھی۔ اس گینگ آف ناگپور سے پنڈ چھڑانا ہی ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟