لوک آیکت کے اختیارات اور وسائل کاسوال


چیف ویجی لنس کمشنر (سی وی سی) کی مانیں تو کرپٹ لوگوں کو سزا دینے کے معاملے میں سرکاری ایجنسیاں پھسڈی ثابت ہوئی ہیں۔ ان کا صاف کہنا ہے کہ اس معاملے میں ہمارا ریکارڈ ایک دم قابل رحم ہے۔ اس میں انتظامیہ کے تئیں جنتا کا بھروسہ اٹھتا جارہا ہے۔ سی وی سی کمشنرشری کمار نے گیارویں آل انڈیا لوک آیکت کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے سنیچر کو کہا کہ کرپشن میں ملوث راکھشس کا اگر خاتمہ کرنا ہے تو ہمیں (سرکاری جانچ ایجنسیوں) آپس میں ہاتھ ملانا ہوگا۔ کرپشن کے خلاف موجودہ طریقہ کار کا ذکر کرتے ہوئے سی وی سی کا کہنا تھا کہ کرپشن کے مورچے پر ہم الگ الگ کام کررہے ہیں۔ بمشکل ہم تال میل قائم کرتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ کرپٹ کو سزا دلاپانا ایک بہت مشکل کام ہوگیا ہے۔ ہماری رائے میں کرپشن سے کارگر ڈھنگ سے نمٹنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم نگرانی اور جانچ مشینری کو مضبوط کریں اس لئے لوک آیکتوں کا یہ کہنا واجب ہے کہ انہیں مزید اختیار دئے جائیں۔ ہر بار لوک آیکتوں کی کانفرنس میں یہ مانگ اٹھتی رہی ہے لیکن سرکار میں بیٹھے سیاستداں اس کی ہر بار ان سنی کر دیتے ہیں۔
دراصل سیاسی پارٹیوں کی اس بات میں زیادہ دلچسپی ہے کہ حریف پارٹیاں اور اپوزیشن لیڈروں پر لگے کرپشن کے الزامات کا اس طرح سے سیاسی فائدہ اٹھایا جائے۔ لیکن ایسے ہر معاملے کی وقت سے جانچ پوری ہو اور اسے نتیجے تک پہنچایا جائے، ایسا نظام بنانے کے تئیں وہ لاچار اور غیر ذمہ دار نظر آتے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ اتنے برسوں کے بعد بھی ابھی تک دیش کے صرف17 راجیوں میں ہی لوک آیکت بن پایا ہے۔ جہاں لوک آیکت ہیں بھی ایک دو ریاستوں کو چھوڑ کر ان کے اختیارات اور وسائل بیحد محدود ہیں۔ ایسے میں ان کا رول محض سفارشی بن کر رہ جاتا ہے۔ لوک آیکت کو سب سے زیادہ اختیار کرناٹک میں حاصل ہے۔ اس کے اچھے نتیجے بھی سامنے آئے ہیں۔ وہاں کے لوک آیکت رہنے کے دوران جسٹس سنتوش ہیگڑے نے بیلاری کھدان معاملے میں مفصل رپورٹ دی اور کئی افسروں کے خلاف سیاسی طور پر کئی طاقتور لوگ بھی کارروائی کے دائرے میں آگئے ہیں۔ پورے دیش میں ایک جیسا لوک آیکت قانون بنے اور اسے ادارے کو مناسب اور طاقتور بنایا جائے وقت کا تقاضہ ہے لیکن موجودہ سیاسی ماحول میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ لوک آیکت ایک نام کا ادارہ بن کر رہ جائے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!