سبرامنیم سوامی کے چکرویو میں پھنستے سونیا ۔راہل گاندھی


جنتا پارٹی کے چیف ڈاکٹر سبرامنیم سوامی اکثر کانگریس پارٹی پر الزام لگاتے رہتے ہیں لیکن کانگریس نے انہیں کافی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ تازہ الزام پر کانگریس پارٹی پھنستی نظر آرہی ہے۔ یہ الزام اس لے بھی زیادہ سنگین ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ سیدھے کانگریس صدر سونیا گاندھی اور ان کے صاحبزادے راہل گاندھی پر لگے ہیں۔ ابھی تک سونیا گاندھی کے داماد رابرٹ واڈرا پر الزامات کا سلسلہ رکا نہیں تھا کہ ڈاکٹر سوامی نے ایک نیا مورچہ کھول دیا ہے۔ انہوں نے نیشنل ہیرلڈ اخبار چلانے والی کمپنی ایسوسی ایٹ جنرل لمیٹڈ کو تحویل میں لئے جانے پر سوال کھڑے کئے گئے ہیں۔ ڈاکٹر سوامی نے ایک اخباری کانفرنس میں بتایا کہ سونیا۔ راہل نے ایک کمپنی کی شروعات کی تھی جسے ’ینگ انڈیا‘ کا نام دیا گیا اور اس میں ہر ایک کا شیئر38 فیصدی تھا۔ اس کمپنی نے ایسوسی ایٹڈ جنرل کو تحویل میں لے لیا جس کا قیام ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے کیا تھا یہ کمپنی نیشنل ہیرلڈ اور قومی آواز شائع کیا کرتی تھی۔
سوامی نے کہا ایسوسی ایٹڈ جنرل کو آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے بغیر جانچ پڑتال کئے 90 کروڑ روپے سے زیادہ کا قرض دے دیا۔ انہوں نے دعوی کیا کہ انکم ٹیکس ایکٹ کے تحت یہ ناجائز ہے کیونکہ سیاسی پارٹیاں کاروباری ایشوز کے لئے قرض نہیں دے سکتیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ کانگریس کے سبب ’ینگ انڈیا‘ نے بورڈ میں ایک ریزولیوشن لاکر صرف50 لاکھ روپے میں قرض ختم کردیا۔ ایسوسی ایٹڈ جنرلس کے شیئروں کی منتقلی کے ذریعے ینگ انڈیاکو بیچ دیا گیا جو اخبار یا میگزین نکالنے والی کمپنی نہیں ہے۔ کانگریس نے پہلے تو سوامی کے الزامات پر خاموشی اختیار کئے رکھی لیکن جب دباؤ بڑھتا گیا تو پارٹی کے ترجمان و میڈیا انچارج جناردن دویدی نے 90 کروڑ روپے کا قرض لینے کی بات تو قبول کرلی لیکن ساتھ ساتھ صفائی دی کہ قانون کی تعمیل کرتے ہوئے اخبار کو درست کرنے کی کارروائی میں شروعات میں مدد کرنے کے ارادے سے ایسوسی ایٹڈ جنرلز کی مدد کر کانگریس پارٹی نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔
پریس ریلیز میں کہا گیا ہے انڈین نیشنل کانگریس نے سود سے مستثنیٰ قرض کے طور پر یہ مدد دی تھی جس کے عوض میں پارٹی کو کوئی کاروباری فائدہ نہیں ہونے والا ہے۔ جناردن دویدی نے کہا کانگریس کا مقصد پارلیمانی جمہوریت پر مبنی سماجی قوم کے پرامن اور آئینی راستوں سے بھارت کے لوگوں کی بھلائی اور ترقی ہے جس میں اخباروں ،سیاسی ،اقتصادی اور سماجی حقوق کی یکسانیت ہو اور جس کا مقصد عالمی امن اور بھائی چارگی ہو۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انڈین نیشنل کانگریس کے لئے یہ فخر کی بات ہے کہ ان مقاصد اور ان کی سیاسی سرگرمیوں میں مدد کے لئے اس نے نیشنل ہیرلڈ اور دیگر اخباروں اشاعت اور ایسوسی ایٹڈ جنرلز لمیٹڈ کی مدد کی تھی جس کا قیام1937 میں پنڈت جواہر لعل نہرو نے کیا تھا جس نے ہماری آزادی تحریک میں اہم رول نبھایا تھا۔ میں نے قارئین کے سامنے ڈاکٹر سوامی کا الزام بھی بتایا ہے کانگریس پارٹی کے ترجمان کا جواب بھی بتایا ہے تاکہ آپ خود فیصلہ کر سکیں کہ معاملہ دراصل کیا ہے؟ شری جناردن دویدی نے یہ تو قبول کرلیا ہے کہ کانگریس پارٹی نے90 کروڑ روپے کا قرض بیشک دیا۔ بیشک مقصدکچھ بھی رہا ہو لیکن اتنا تو طے ہوگیا ہے کہ 90 کروڑ روپے کا قرض دیا گیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کیا یہ قانونی خلاف ورزی نہیں ہے؟ ڈاکٹر سوامی کہتے ہیں یہ خلاف ورزی ہے۔ اخبار کو سود سے پاک 90 کروڑ روپے کی کانگریس کی منظوری کے بعد سوامی چناؤ کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں۔انہوں نے عرضی دیکر کانگریس کی منظوری منسوخ کردینے کی مانگ کی ہے۔ کہا ہے کہ سیاسی پارٹی کے طور پر کانگریس چندے سے اکٹھا کردہ پیسہ قانوناً کسی کمپنی کو قرض کے طور پر نہیں دے سکتی۔ سوامی نے کہا کانگریس پارٹی نے گائڈ لائنس کی صریحاً خلاف ورزی کی ہے۔ آر پی اے کی دفعہ292A سےC میں سیاسی پارٹیوں کے ذریعے کسی کمپنی کو سود یا بے سود قرض دینے کی کوئی سہولت نہیں ہے۔ انکم ٹیکس قانون کے مطابق کوئی بھی سیاسی پارٹی کسی کمپنی کو قرض نہیں دے سکتی۔ 
کانگریس نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا یہ طے کون کرے گا کسی پارٹی کے سیاسی پروگرام کون کون سے ہیں؟ ہمارے مفادی سیاسی کام ہم خود طے کریں گے۔ ہم دوسروں کو اپنے سیاسی کام طے کرنے کا حق نہیں دے سکتے کیونکہ اب معاملہ چناؤ کمیشن کے پالے میں ہے وہی طے کرے گا کہ اس معاملے میں قانون اور ضابطوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے یا نہیں؟ ایک دوسرا سوال جو اٹھ رہا ہے وہ ہے ’ینگ انڈین‘ کو لیکر کانگریس کی صفائی کے باوجود اپوزیشن اس ’ینگ انڈیا‘ کمپنی کو لیکرسوال اٹھا رہی ہے جس میں سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کے76فیصدی شیئر ہیں۔
کانگریس نے کہاینگ انڈین ایسوسی ایٹڈ جنرلز لمیٹڈ کو تحویل میں نہیں لیا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ جنرلز ابھی باقی ہے کیونکہ مخالفین کی دلیل ہے کہ اگر کانگریس نے اس کمپنی کو بچانے کے لئے 90 کروڑ روپے کا قرض دیا تو اس کے شیئر اس ینگ انڈیا کمپنی کو کیسے مل گئے جس میں سونیا راہل کے38-38 فیصدی شیئر ہیں۔ اگر یہ کمپنی کانگریس کی ہی ہے تو شیئر پارٹی کے نام کیوں نہیں؟ سوامی الزام لگا رہے ہیں کہ نیشنل ہیرلڈ دہلی میں واقع 1600 کروڑ روپے کی پراپرٹی پر قبضہ کرنے کی نیت سے یہ قرض دیا گیا ہے۔ اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر کسی ادارے کی منظوری ختم کرنے کے بارے میں پہلے بھی آواز اٹھائی گئی ہے جب خود کو غیر امداد یافتہ ادارہ بتانے والے بھارتیہ کرکٹ کنٹرول بورڈ کے ذریعے آئی پی ایل کو قرض دینے پر اس کی مانیتا رد کردی گئی تھی۔ تو اس کے بارے میں امتیاز کیو برتا جارہا ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!