دہلی کے شہریوں ہوشیار! یہ سردی کی دھند نہیں خطرناک دھنواں ہے


پچھلے کئی دنوں سے دہلی کے آسمان میں چھائے دھنویں نے ایک طرح کے کہرے کی چادر پھیلا رکھی ہے۔ اس نے دہلی والوں کی صحت بگاڑ دی ہے۔ اگر یہ کہرہ ہوتا تو تشویش کی بات نہیں تھی لیکن یہ کہرہ نہیں ہے جسے آپ اور میں سردیوں کا کہرہ سمجھ رہے ہیں وہ کوئی عام کہرہ نہیں۔ وہ کہرے کی شکل میں ایسڈ کی چادر ہے۔ دراصل دہلی کی سڑکوں پر دوڑتی گاڑیوں کو بھی اس کہرے سے دقت ہورہی ہے کیونکہ سڑک پر دھند کی وجہ سے دکھائی دینے کی دوری کافی کم ہوجاتی ہے۔ یقیناًیہ ایک دھنواں ہے جس میں خطرناک کیمیکل اور دھول وغیرہ شامل ہے۔ سوال یہ ہے کہ دہلی پر یہ خطرناک چادر کیسے چھا گئی ہے؟ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ آندھرا پردیش اور تاملناڈو کے ساحلی علاقوں سے گذرے سمندری طوفان ’نیلم‘ کی وجہ سے دہلی سمیت شمالی بھارت کے علاقے میں اس کا اثر ہوا ہے لیکن سب سے بڑی وجہ آلودگی ہے۔ دہلی میں بڑھتی آلودگی ایک بار پھر تشویش کا باعث بنتی جارہی ہے کیونکہ دہلی میں آلودگی کی سطح زیادہ ہے ایسے میں کہرے کے ساتھ دھول کے ذرات نے مل کر ماحولیات میں گرد کی چادر بنادی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کے آنکھوں میں جلن سے لیکر دمے جیسی مشکل کھڑی ہوگئی ہے۔ سینٹر فار سائنس اینڈ انوارمینٹ کے ماہرین کے مطابق دہلی میں ہوائی آلودگی دوبارہ بننے لگی ہے۔ 2001ء میں جب سی این جی پروگرام چالو ہوا تھا تو رہائشی علاقوں میں ریسی پریبل سسپینڈ پریکولیٹ کا سالانہ تناسب سطح 149 مائکرو گرام سی کیوبک میٹرتھا۔ 2008 میں یہ 209 تک پہنچا تھا۔ کاربن مونوآکسائڈ جو کہ زیادہ تر علاقوں میں اب تک اسٹینڈرڈ لیبل سے کم رہتا تھا اس میں بھی اضافہ پایا گیا ہے۔ سینٹرل پالوشن کنٹرول بورڈ کے مطابق دہلی میں 2011 کے مقابلے اس سال کاربن مونو آکسائڈ کی سطح 1584.7 کے مقابلے 1772.9 مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر درج کی گئی ہے۔ کیمیائی ذرات کی مار جھیل رہے دہلی کے شہریوں کے لئے ماہرین نے کچھ احتیاطی قدم برتنے کی صلاح دی ہے۔ ان کا کہنا ہے دھنویں سے ایسے ذرات ہیں جو ہوا میں نچلی سطح پر آجاتے ہیں۔یہ آلودگی پاٹیکل پی ایم10 اور پی ایم2.5 زیادہ چھوٹے ذرات نچلی سطح پر آجاتے ہیں۔ماحول میں پھیلے پاٹیکل کے چھوٹے چھوٹے ذرات گاڑیوں اور صنعتی کارخانوں کے پاور پلانٹ و لکڑیوں کے جلنے سے نکلتے ہیں۔یہ ٹھوس اور رقیق ذرات کی ملی جلی شکل ہے۔ یہ آدمی کے بال سے بھی 100 گنا تک باریک ہوتے ہیں۔ حال ہی میں راجدھانی میں ان کی مقدار 500 اوسطاً مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر ہے۔ نچلی سطح پر آنے سے یہ سانس کے مریضوں کے لئے خاصی پریشانی کھڑی کرتے ہیں کیونکہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے یہ سیدھے سانس کی نلی سے پھیپھڑوں تک پہنچ جاتے ہیں یہ بھی وارننگ دی گئی ہے کہ اگر ان دنوں بارش ہوگی تو ایسٹڈ ریم کا خطرہ ہے۔ بہتر ہوگا کہ اس دھنویں کے رہتے بارش سے بچا جائے۔ امید کرتے ہیں یہ دھنواں جلد ختم ہوجائے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟