کیا اومابھارتی کی اینٹری ہندوتوپولارائزیشن کی کوشش ہے؟



Published On 22th January 2012
انل نریندر
نانا کرتے ہوئے بھی آخر کار بھارتیہ جنتا پارٹی کی فائر بینڈ لیڈر مس اوما بھارتی اترپردیش اسمبلی انتخابات میں کود گئی ہیں۔ اس سے بھاجپا میں ان کے دوبارہ سرگرم ہونے کا عمل بھی پورا ہوگیا ہے۔ یوں تو پارٹی صدر نتن گڈکری نے اوما کو چھ سال کے بنواس کے بعد پچھلی جون میں پارٹی میں شامل کیا تھا لیکن صحیح معنی میں اوما کی سیاست میں دوبارہ اینٹری بندیلکھنڈ کے مہوبہ ضلع کی چرخاری اسمبلی سیٹ پر اپنی نامزدگی داخل کرنے سے ہوئی ہے۔ اوما بھارتی بنیادی طور سے بندیلکھنڈ کی ہی رہنے والی ہیں لیکن ان کاحلقہ مدھیہ پردیش ہی رہا ہے۔ چرخاری حلقہ لودھ فرقے کی اکثریت والا ہے۔مس اوما بھارتی بھی لودھ برادری سے ہیں۔ اوما بھارتی کو بھاجپا میں شامل کرنے کے پیچھے نتن گڈکری کو یہ ہی امید تھی کے وہ کلیان سنگھ کے پارٹی چھوڑنے کے بعد پارٹی کو پھر سے منظم کرکے جتائیں گی۔ اوما بھارتی ہمیشہ تنازعوں کا مرکز رہی ہیں۔ جب وہ پارٹی میں لوٹیں تو بحث شروع ہوگئی کے کیا پارٹی انہیں وزیر اعلی کے عہدے کا چہرہ پروجیکٹ کرے گی؟ 90 کی دہائی جیسا سیاسی جلوہ دکھانے کے چکر میں لگی بھاجپا پسماندہ کارڈ کے بہانے پھر ہندوتو کا ڈنکا بجانے کی تیاری میں ہے۔ مسلم ریزرویشن کی مخالفت اور اوما بھارتی کو آگے کر پسماندہ ووٹ بینک میں سیند کو بھاجپا نے اپنے چناوی ایکشن پلان کا کام شروع کردیا ہے۔ چناوی اشو کی تلاش میں بٹھک رہی بھاجپا کا کام کانگریس نے کچھ حد تک کردیا ہے۔ مرکزی حکومت کی جانب سے پسماندہ طبقہ (او بی سی) کوٹے سے 4.5 فیصد کوٹہ مذہبی بنیاد پر اقلیتوں کو دینے کے فیصلے میں بھاجپا کو چناوی فائدہ نظر آیا اس لئے پارٹی نے لائن آف ایکشن ہی بدل ڈالا۔ کرپشن، بدانتظامی اور مہنگائی ، کالی کمائی جیسے معاملوں کو پیچھے چھوڑ کر مسلم ریزرویشن مخالفت کو ہی بنیادی اشو بنا لیا۔ اتنا ہی نہیں پسماندہ طبقوں کی ہمدردی لینے کی جلد بازی میں این آر ایچ ایم گھوٹالے میں ملزم وزیر بابو سنگھ کشواہا کو گلے لگالیا۔ کشواہا معاملہ بھاجپا کے گلے کی ہڈی بنتا دکھائی دیا تو مدھیہ پردیش کی سابق وزیر اعلی اوما بھارتی کو چناؤ میدان میں اتار دیا۔ پسماندہ طبقات کے مفاد کو بچانے کو مسلم مخالف مہم کی پٹری پر لوٹتی بھاجپا نے جمعہ کو پوری ریاست میں اسمبلی حلقے سطح پرستا پریورتن پد یاترائیں نکالنا شروع کردیں۔پسماندہ طبقات کو لبھانے کے لئے سال2000 میں اس وقت کے وزیر اعلی راجناتھ سنگھ نے سماجی انصاف کمیٹی رپورٹ نافذ کرکے انتہائی پسماندہ طبقات کو او بی سی کوٹہ دینے کا داؤ بھی نہیں چل پایا۔ 1996 میں 174 سیٹیں جتانے والی بھاجپا 2002ء میں88 سیٹوں پر سمٹ کر رہ گئی تھی۔ کلیان سنگھ کی وجہ سے لودھ ووٹ بینک بھاجپا کے ساتھ طویل عرصے تک جڑا رہا ہے۔
پردیش میں یہ ووٹ بینک 4 سے6 فیصدی مانا جاتا ہے۔ بندیلکھنڈ میں تو اس ووٹ بینک کی حصے داری 9 فیصدی تک مانی جارہی ہے۔ 2007ء میں تو بھاجپا بندیلکھنڈ سے اپنا کھاتہ بھی نہیں کھول پائی تھی۔ مندر تحریک کے دوران اوما نے بندیلکھنڈ کی دھرتی میں کمل کو کھلانے کے لئے جم کر محنت کی تھی۔اس کے لئے گاؤں گاؤں میں ان کا نیٹ ورک قائم ہے۔ لمبے عرصے تک ، گنگا ابھیان جیسی غیر سیاسی تحریک میں اپنی طاقت لگاتی آئیں اوما ایک بار پھرجارحانہ چناوی انداز میں نظر آ نے لگی ہیں۔ دو دن پہلے تو ان کے نشانے پر کانگریس کے یووراج راہل گاندھی آگئے تھے۔ دراصل بندیلکھنڈ کے چناؤ میدان میں اوما زور شور سے اتریں تو راہل نے ان کو نشانہ بنایا تھا۔ ایک ریلی میں انہوں نے اوما پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہہ ڈالا کہ مدھیہ پردیش سے بھاگ کر آئیں ایک نیتا اچانک آپ کے درمیان مسیحا بننے کی کوشش کررہی ہیں۔ جب آپ تکلیف میں تھے تب ساتھ دینے کے لئے اکیلے کانگریس ہی آئی تھی۔ راہل کے اس تلخ بیان کا زور دار جواب اپنے فائر بینڈ اسٹائل میں اوما نے یوں دیا: ان کی ماں تو اٹلی سے آئی ہیں پھر بھی یہاں کے لوگوں نے انہیں قبول کرلیا ۔ جبکہ وہ تو پڑوسی ریاست سے ہی آئی ہیں۔ ایسے میں راہل کچھ بولنے سے پہلے سوچ سمجھ لیاکریں تو اچھا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں اوما بھارتی کے میدان میں کودنے سے کانگریس میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ کانگریس نے اکیلے بندیلکھنڈ میں ہی 19 میں سے10 سیٹیں جیتنے پر امید لگائی ہوئی ہے۔ اوما بھارتی کے آنے سے جہاں کانگریس کا تجزیہ بدل سکتا ہے وہیں آہستہ آہستہ پارٹی پھر ہندوتو پر لوٹ سکتی ہے۔ اوما بھارتی کی کوشش ہوگی ایک بار پھر اترپردیش میں ووٹوں کا دھارمک لائن پر پولارائزیشن ہورجائے۔
Anil Narendra, BJP, Daily Pratap, Elections, State Elections, Uma Bharti, Uttar Pradesh, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟