سپریم کورٹ کا فیصلہ ٹکڑاؤ پیدا کرسکتا ہے


Published On 28th January 2012
انل نریندر
سپریم کورٹ نے پاکستان اپنے ایک فیصلے میں آئین سازیہ اور عدلیہ کے درمیان اختیارات کی ایک نئی بحث شروع کردی ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ پارلیمنٹ و اسمبلی ممبران کی اہلیت کے بارے میں اسپیکر کے احکامات کاعدلیہ جائزہ لے سکتی ہے۔ اس سلسلے میں اسپیکر کا فیصلہ آخری نہیں مانا جائے گا۔ جسٹس التمش کبیر اور جسٹس سلیک جوزف کی بنچ نے کرناٹک کے بھاجپا و آزاد ممبران اسمبلی کو نا اہل ٹھہرانے والے اسمبلی اسپیکر کے احکامات کو غلط قراردیتے ہوئے بدھ کے روز اس کے اسباب بیان کئے ہیں۔ حالانکہ عدالت گذشتہ برس 13 مئی کو ہی اس سلسلے میں فیصلہ سنا چکی تھی اور مفصل سے جاری فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ اسپیکر آئین کی دسویں شق میں ممبران کی نا اہلیت کے بارے میں نیم جوڈیشیری اتھارٹی کی طرح فیصلہ کرتا ہے۔ ایسے میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ اس کے آخری حکم کا جوڈیشری جائزہ لے سکتی ہے۔ اب یہ قانون بن چکا ہے کہ اسپیکر کا آخری حکم آئین میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو ملے اختیارات پر روک نہیں لگاتا۔ سپریم کورٹ سیکشن 32 اے اور 136 و ہائی کورٹ کی سیکشن 226 کے تحت اسپیکر کے حکم کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ معلوم ہو کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو ان سیکشنوں میں خاص طور پر نشان زدہ اختیارات ملے ہوئے ہیں۔ کورٹ نے کہا کہ آزاد ممبران اسمبلی کو سرکار کی حمایت واپس لینے اور کسی اور کو حمایت دینے کی بنیاد پر دل بدل قانون کے تحت نااہل نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ قانون میں ان کی حمایت دینے یا واپس لینے پر کوئی روک نہیں ہے۔ حکمراں پارٹی کو حمایت دینے یا اس کی میٹنگوں یا ریلیوں میں آزاد ممبران کے حصہ لینے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اس سیاسی پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں۔ اس لئے ان کے محض سرکار کے شامل ہونے یا وزیر بننے سے ان کی سیاسی پارٹی جوائن کر ثابت نہیں کرتا۔ عدالت نے فریقین کی ان دلیلوں کو بھی مسترد کردیا جن میں کہا گیا تھا کہ کسی ممبر کی نااہلیت کے بارے میں اسپیکر کا فیصلہ آئینی تقاضوں میں آخری فیصلہ مانا جاتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ کرناٹک کے اسپیکر کا ممبران کو نااہل ٹھہرانے کا فیصلہ غلط نیت کا عکاس تھا۔ حقائق کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اسپیکر صرف فلور ٹیسٹ سے پہلے ممبران کو نا اہل ٹھہرانا چاہتے تھے اس لئے انہوں نے اتنی جلد بازی میں کارروائی کی جس سے ممبران کو اپنی بات رکھنے کا موقع نہیں ملا۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ یقینی طور پر اسپیکر کے اختیارات پر ٹکڑاؤ پیدا کرے گا۔ بیشک اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسپیکر حکمراں پارٹی سے تعلق رکھتا ہے اور اس کے تئیں اس کی ہمدردی بھی ہوتی ہے اور اکثر فلور ٹیسٹ سے پہلے وہ حکمراں پارٹی کی مصیبت کم کرنے کے لئے کچھ ممبران کو نا اہل قراردے کر ووٹ دینے سے محروم رکھتے ہیں لیکن وہیں اسپیکر کہیں گے کہ ایوان کے اندر کی کارروائی اور اس سے متعلقہ سبھی معاملوں میں وہ قطعی طور پر با اختیار ہے۔آئین سازیہ اور عدلیہ کا اس مسئلے پر ٹکڑاؤ ہونا فطری ہی ہے کیونکہ معاملہ عدالت اور اسپیکر کے درمیان ہے اس لئے اس پر اور تبصرہ نہیں کیا جاسکتا۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Speaker, Supreme Court, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟