اترپردیش چناؤ میں دبنگی کے معاملے میں سب کادامن داغدار


Published On 23th January 2012
انل نریندر
 چناؤ کمیشن چاہے جتنے بھی قانونی سختی برتے اترپردیش اسمبلی چناؤ میں ان دبنگیوں کو نہیں روک سکتاہے ۔ یہ کوئی نہ کوئی راستے ضرور نکال لیتے ہیں ۔ان دبنگیوں کا آخر مقصد شاید ایک اسمبلی ممبر بننا ہوتا ہے اور ایسا کرنے کے لئے پہلے تو وہ بڑی سیاسی پارٹیوں کو ٹٹولتے ہیں۔ جب انہیں وہاں جگہ نہیں ملتی تو وہ کوئی چھوٹی پارٹی ڈھونڈتے ہیں چونکہ اسے پارٹی کے بل پر چناؤ جیتنا نہیں بلکہ انہیں تو وہ اس پارٹی کا چناؤ نشان چاہئے۔ ایسی ہی ایک پارٹی اپنا دل ہے۔ اس دل سے ہی الہ آباد کے عتیق احمد کا ممبراسمبلی بننے کا خواب پورا ہوا تھا۔ یہ بات دیگر ہے کہ اس کے بعد سماج وادی پارٹی نے انہیں اپنے یہاں جگہ دے کر لوک سبھا تک پہنچایا اور وہ بھی پنڈت جواہر لال نہرو کے پارلیمانی حلقے سے 2004میں اپنادل کے بانی سونے لال پٹیل ببلو سری واستو کو سیتا پور سے اپنا دل کا امیدوار بنایا تھا۔یہ ہی نہیں ان کی کتاب ''ادھورا خواب ''کااجراء بھی پٹیل نے کیا تھا۔اب جب دوسرے مافیا منا بجرنگی کو ممبر اسمبلی بننے کی خواہش ہوئی ہے۔ تب اس کے خواب کو بھی اپنا دل ہی پنکھ لگارہا ہے۔ منا بجرنگی جونپور کے بھیڑیاؤ سے اپنا دل کے امیدوار ہیں ۔عتیق احمد پھر ایک بارالہ آباد کے شہر وریشمی سے اپنا دل کے ٹکٹ پر اپنی قسمت آزمارہے ہیں۔ کچھ ایسی حالت پیس پارٹی کی بھی ہے۔ کانگریس پردیش پردھان ڈاکٹر ریتا بہوگنا جوشی کا گھر جلانے کے ملزم جتیندر سنگھ ببلو کو پیس پارٹی نے اپنا یہاں جگہ دی تھی۔ مایا وتی بعد میں انہیں نکال پائی۔ اب وہ بیکا پور سے میدان میں ہیں۔ یہی نہیں اپنے بوتے پر سونیاگاندھی پارلیمانی حلقے رائے بریلی سے آزاد امیدوار کی شکل میں چناؤ جیتتے آرہے اکھلیش سنگھ کو بھی پیس پارٹی میں نہ صرف سیاسی پناہ ملی بلکہ انہیں قومی جنرل سکریٹری کا عہدہ بھی دے دیاگیا۔ داغیوں کو چناؤ سے دور رکھنے کی بات سبھی پارٹیاں کرتی ہیں لیکن ان پر عمل دھیلے بھر کابھی نہیں ہوتا۔ وارانسی کے اجے رام مشہور دبنگی ہیں۔یہ پہلے بھاجپا میں تھے ۔لوک سبھا میں چناؤ کاٹکٹ نہیں ملاتو سماج وادی پارٹی میں چلے گئے۔ اس مرتبہ وہ وارانسی کی پنڈرا سیٹ سے کانگریس کے امیدوار ہیں۔ آزاد امیدوار رگھوراج پرتاپ سنگھ عرف راجہ بھیا سماج واری پارٹی کے قریب ہیں اس مرتبہ وہ کنڈا سیٹ سے پھر چناؤ لڑرہے ہیں۔ رائے بریلی ضلع سے امید وار محمد مسلم کے خلاف مارپیٹ بلوا جیسے کئی معاملے درج ہیں۔ سپا میں بھی داغیوں کی کمی نہیں۔ متر سین یادو کو حال ہی میں عدالت سے ایک معاملے میں سزا ہوئی ہے۔ یادو کے بیٹے آنند سین یادو ایک دلت طالبہ سے بدفعلی اورقتل کے معاملے میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ سپا نے متر سین کو فیض آبادکی بیکا پور سیٹ سے اپنا امیدوار بنایا ہے۔ دبنگی ابھے سنگھ بھی فیض آبادکی گوشئی گنج سیٹ سے سپا کے امیدوار ہیں۔ کابینہ وزیر نند گوپال نندی پر حملے کے ملزم وجے مشرا کو سپا نے ٹکٹ دیا ہے۔ وہ بدھوئی سے کھڑے ہوئے ہیں۔گڈو پنڈت اور ونود سنگھ عرف پنڈت سنگھ بھی سپا کے بینر تلے چناؤ لڑرہے ہیں۔ فہرست بہت لمبی ہے کس کس کی کہانی بتائیں۔ چناؤ ہرحال میں جیتنے کی چاہ میں سبھی پارٹیاں یہ نہیں دیکھتیں کہ وہ کس شخص کو ٹکٹ دے رہے ہیں اس کا کردار اور ریکارڈ کیاہے؟ یہی وجہ ہے کہ سیاست میں جرائم کا بول بالا بڑھتا جارہا ہے۔ چناؤ کمیشن کیا کرے۔ جب یہ سیاسی پارٹیاں خود ہی پرہیز نہیں کرتی؟
Anil Narendra, Crime, Criminals, Daily Pratap, State Elections, Uttar Pradesh, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟