ہندوستانی کنبوں میں سونے چاندی کا کریز



Published On 22th January 2012
انل نریندر
بین الاقوامی کموڈٹی بازار میں حالیہ تیزی کے بعد اب دیش کے لوگوں کو گھریلو بازار میں سونے چاندی کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کی امید ہے۔ حکومت نے قیمتی میٹل کے ٹیکس ڈھانچے میں ترمیم کرتے ہوئے اسے مقدار کے بجائے قیمت کے مطابق کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ قیمتی میٹل پر درآمدات اور پروڈکشن دونوں طرح کے ٹیکسوں کی شرحوں میں ترمیم کی ہے اس سے رواں مالی سال میں بچی ہوئی میعاد میں قریب 600 کروڑ روپے کا فاضل محصول ملے گا۔ ابھی تک سونے کے فی دس گرام پر 300 روپے کا ٹیکس لگتا تھا اب سونے کی قیمت کی بنیاد پر 1.5 فیصد پروڈکٹیو ٹیکس لگانے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔ ابھی تک سونے پر 200 روپے فی دس گرام یہ ٹیکس لگتا تھا۔اسی طرح چاندی پر 4 فیصد پروڈکٹیو ٹیکس لگے گا جبکہ پہلے فی کلو چاندی پر 1000 روپے پروڈکٹ ٹیکس لگا کرتا تھا۔ ہندوستانیوں کو سونے سے کتنا لگاؤ ہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستانی کنبوں کے پاس950 ارب ڈالر (49400 ارب روپے) مالیت کا سونا ہے۔ عالمی ریسرچ فرم میکسویری کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سونا رکھنا ہمارے دیش کی تہذیب اور روایت کاحصہ ہے۔ بھارت دنیا میں سونے کا سب سے بڑا صارفین ملک ہے۔ چین کا بھی نمبر بھارت کے بعد ہی آتا ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ہندوستانی خاندانوں کے پاس 18 ہزار ٹن سونا ہے جو سونے کے بین الاقوامی ذخیرے کا 11فیصد ہے اور موجودہ قیمت کے حساب سے یہ 950 ارب ڈالر بیٹھتا ہے۔ سونا ڈالر کی قیمت میں بھارت کے جی ڈی پی کا 50 فیصدی ہے۔
عام ہندوستانی خاندان مشکل کی گھڑی میں بھی سونے کے زیورات یا سونا نہیں بیچتے کیونکہ ایسا کرنا وہ صحیح نہیں مانتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جنوری2010ء سے ستمبر2011ء کے درمیان دیش میں سونے کی قیمتوں میں 64 فیصدی اضافہ ہوا ہے۔ اس کے باوجود بھارت میں سونے کی مانگ مضبوط ہوئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2011ء کی پہلی سہ ماہی میں سالانہ بنیاد پر سونے کی کھپت میں 5فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ 2010ء میں سالانہ بنیادپر سونے کی ڈیمانڈ 72 فیصد بڑھی ہے۔ حالانکہ ستمبر2011 کو اختتام پذیر سہ ماہی میں مقدار کے حساب سے سونے کی مانگ پچھلے سال کی بہ نسبت 23 فیصد کم رہی۔ اس کی بنیادی وجہ روپے میں گراوٹ ہے۔ دیوالیہ ہونے کے دہانی پر کھڑی یوپی اے سرکار کے راج کو بیپ خسارے کو کنٹرول رکھنے کا دباؤ بھی بڑھتا جارہا ہے۔ ایسے میں وہ ہر ممکن ذرائع سے محصول اکٹھا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ عام ہندوستانیوں میں یہ ایک ٹرینڈ ہے کہ وہ سونا چاندی ضرور رکھنا چاہتا ہے۔ اسے کرنسی پر اتنا بھروسہ نہیں جتنا سونا چاندی پر ہے۔ پہلے زمانے میں خوشحال پریوار سونا خرید کر اپنے آنگن میں گڈھا کھود کر دبا دیا کرتے تھے اور مختلف پیڑھیو ں میں یہ سونا منتقل ہوتا تھا۔ شاید ہی کوئی مشکل سے مشکل اقتصادی صورتحال میں بھی سونا چاندی بیچنے کو تیار ہوتا۔ خوشحال خاندانوں میں تو چاندی کی بھگوان کی مورتیاں، ڈنر سیٹ، چائے سیٹ بھی بنتے ہیں۔ ہندوستانیوں کا سونے چاندی کا یہ کریز بہت ہی دلچسپ ہے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Gold Ornaments, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟