پاکستانی عوام نے راحت کی سانس ضرور لی ہوگی


Published On 23th January 2012
انل نریندر
پاکستان کی عوام نے تھوڑی راحت کی سانس ضرور لی ہوگی۔ تیزی سے بدل رہے واقعات پر تھوڑا بریک لگا ہے ۔زرداری حکومت کاجس طرح سے پاکستانی فوج اور پاکستان سپریم کورٹ سے ٹکراؤ ہورہا تھا۔ اس سے لگ رہا تھا کہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن سبھی فریقین نے تھوڑا ضبط سے کام لیا اور یہ خطرناک صورت حال فی الحال ٹل گئی۔ کتنے دن یہ قائم رہتی ہے یہ کچھ نہیں کہا جاسکتاہے۔لیکن ہاں سپریم کورٹ کی اگلی تاریخ 24جنوری یعنی آج تک معاملہ ٹلا ہے۔ آج اس میموگیٹ معاملے پر سماعت ہوگی۔ اس معاملے میں حکومت اورفوج پھر ایک بار آمنے سامنے ہوگی۔ فی الحال ہم یہ کہہ سکتے ہیں پاکستان میں جمہوریت کی جیت ہوئی ہے۔ عوام کی جیت ہوئی ہے۔ ہمیں پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی تعریف کرنی ہوگی کہ انہوں نے پاکستانی جنرلوں اورسپریم کورٹ دونوں سے بہادری کے ساتھ اپنا موقوف رکھا اور اپنے پتے اچھی طرح سے کھیلیں ۔ اتنا طے ہے کہ پاکستانی عوام فوج کی حکومت کسی بھی قیمت پر برداشت کرنے کو تیار نہیں ۔جہاں تک پاک میں مالکانہ حق کاسوال ہے شاید صرف اللہ ہی اس کا جواب دے سکتا ہے۔ 2012اور 2013 پاکستان کے لئے دو اہم سال ثابت ہوسکتے ہیں۔ اسی دوران افغانستان سے امریکی فوج کو ہٹنا ہے اس کے بعد افغانستان میں کیا ہوگا۔ اس کاسیدھااثر پاکستان اور ہندوستان پر پڑنے والا ہے۔ 2013 میں ہی چیف جسٹس محمد افتخار چودھری ریٹائر ہونے والے ہیں اور مارچ 2013میں ہی پارلیمنٹ کے 5سال پورے ہوں گے۔ پھر ستمبر2012 میں صدر آصف علی زرداری کے عہدے مدت پانچ سال پوری ہوگی۔ نومبر 2013 جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ملازمت میں تین سال کی توسیع پوری ہوجائے گی۔ 2012 ہنگامی حالت میں شروع ہوا ہے۔ آئی ایس آئی چیف احمد شجاع پاشا کی میعاد اسی مارچ کو پوری ہورہی ہے۔ اور خبر آچکی ہے کہ انہیں کوئی توسیع نہیں دی جائے گی۔ پھر پاکستان میں تین سال بعد مارچ کامہینہ اسی لئے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں سینٹ( راجیہ سبھا) کی آدھی سیٹیں خالی ہونے والی ہے۔ سینٹ میں سیاسی تعذیہ بدلیں گے ۔سابق صدر جنرل مشرف کا پاکستان لوٹنا لٹک گیا ہے۔کبھی خبر آتی ہے کہ وہ لوٹ رہے ہیں اور کبھی خبر آتی ہے کہ فی ا لحال وہ نہیں آرہے ہیں۔ حالانکہ پاکستانی پارلیمنٹ کے چناؤ اگلے مہینے مارچ میں ہونے ہیں لیکن عمران خان اور نواز شریف کو چناؤ کرانے کی جلدی لگی ہوئی ہے۔ انہیں لگتا ہے مستقبل قریب میں چناؤہوجاتے ہیں تو انہیں اقتدار کے قریب آنے میں مددملے گی۔ پاکستان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی گزشتہ جمعرات کو سپریم کورٹ پہنچے تو انہوں نے دوٹوک لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ میں عدلیہ کا پورا احترام کرتا ہوں۔ لیکن آصف زرداری کے خلاف کرپشن کے مقدمے پھر کھولنے سے ہاتھ کھڑے کرتا ہوں کیونکہ آئین کے تحت صدر کو ہی پوری چھوٹ حاصل ہے۔ یہ جواب انہوں نے سات ججوں کی ایک بنچ کے ذریعہ پوچھے گئے اس سوال کہ صدر زرداری پر سوئٹزرلینڈ میں منی لینڈرنگ کا معاملہ پھر سے کھولنے کے لئے خط لکھنے کے عدالتی احکامات کی تعمیل کیوں نہیں ہوئی۔ گیلانی کے وکیل اعتراز احسن نے کہا کہ سویس سرکار کو خط لکھنے کے لئے کورٹ کو پاکستان سرکار پر دباؤ نہیں ڈالناچاہئے۔ کیونکہ اس کامذاق بنتا ہے سویس انتظامیہ کا کہناہے کہ ویانہ معاہدے کے مطابق صدر کو اس کی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ کورٹ نے پوچھا کیا حکومت نے کبھی سوئس انتظامیہ سے رابطہ قائم کیا ہے؟ جواب داخل کرنے کے لئے گیلانی کو عدالت نے ایک ماہ کاوقت دیا ہے۔ قابل غور ہے کہ پاک صدر آصف علی زرداری اور ان کی مرحومہ اہلیہ و سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو سال 2003میں سوئٹزر لینڈ کی ایک عدالت نے کروڑوں ڈالر کی خردبرد کا قصوروار پایا تھا۔ یہ معاملہ تب کا ہے جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھی۔ بعدمیں ان دونوں نے سوئٹزر لینڈ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی اس کے بعد 2008میں پاکستانی حکومت کی درخواست پر سوئٹزر لینڈ نے یہ جانچ بند کردی تھی۔ سال 2008میں بے نظیر بھٹو کے خلاف ہزاروں ایسے معاملے بند کئے گئے تھے جس کی وجہ سے وہ چناؤ میں حصہ لینے کے لئے پاکستان آپائی تھی۔ اس کے کچھ عرصے کے بعد ان کو قتل کردیا گیا تھا۔ 2009 میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے ان معاملوں کو بند کرنے کو غیرآئینی قرار دیاتھا اور تب سے دونوں حکومت اور سپریم کورٹ میںیہ ٹکراؤ چل رہاتھا۔ کرپشن اور بدانتظامی کے الزاموں کے بعد پچھلے تین برسوں سے صدر زرداری کی کرسی ڈگمگارہی ہے۔ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ ان کی یہ کرسی کتنے اور دن کے لئے محفوظ ہے۔ لیکن فی الحال کچھ وقت کی مہلت ضرور مل گئی ہے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Pakistan, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟