راجدھانی میں پھل پھول رہا ہے منشیات کا گورکھ دھندہ


Published On 25th January 2012
انل نریندر
دو سال پہلے اپنے ملک گھاناسے آیا تو وہ لیڈیز فٹ ویئر کا ایکسپورٹ کا کام کرنے والا تھا لیکن کاروبار کی سست روی سے بن گیا نشے کا سوداگر۔ ممبئی میں مقیم اس کے ایک واقف کار نے اسے جلدی پیسہ بنانے کا فارمولہ سمجھا دیا اور اس نے نشیلی منشیات کا کاروبار شروع کردیا۔ دہلی پولیس کی کرائم برانچ نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑلیا اور اس سے دو کروڑ روپے کی کوکن برآمد ہوئی۔ گھانا کا یہ باشندہ پول 2010ء میں ہندوستان آیا تھا۔ ممبئی میں مقیم اس کے دیش کے ایک شخص کراس نام کے ایک شخص نے اس کاروبار کے فائدے گناکر اس دھندے میں جھونک دیا۔ اس کے بعد پال دہلی میں نشے کی کھیپ سپلائی کرنے لگا۔ پال اپنے جوتوں میں کوکن چھپا کر لاتا تھا اور فلائٹ سے دہلی پہنچتا تھا۔ جمعہ کو محکمہ نارکوٹکس برانچ نے اسے ممبئی سے آئی ایک گھریلو پرواز سے اتارا تھا۔ یہاں آتے ہی اسے دبوچ لیا گیا ۔اس کے پاس سے 200 گرام کوکین برآمد ہوئی۔ جس کی بین الاقوامی بازار میں 2 کروڑ روپے قیمت بتائی جارہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کوکین کو پیج تھری اور ہفتہ واری پارٹیوں میں سپلائی کیا جانا تھا۔ اس سے کچھ دن پہلے ساؤتھ افریقہ کے باشندے کیلی ولیمس میبین (36سال) کو کرائم برانچ نے گرفتار کیا تھا۔ یہ بھی دہلی کے ہائی پروفائل لوگوں کو کوکین سپلائی کیا کرتا تھا۔ اس کے پاس سے 40 لاکھ روپے کی کوکین برآمد ہوئی۔ پوچھ تاچھ میں خلاصہ ہوا کہ کیلی جولائی 2011ء میں ممبئی آیا تھا۔اس کے پاس ملٹی پرپس ویزا تھا۔ ستمبر2011ء میں کیلی دہلی آیا اور اس نے اپنے دوست جیمس جس کے ساتھ وہ رہتا تھا، کوکین کا دھندہ شروع کیا۔وہ دہلی کے ساتھ ساتھ این سی آر میں بھی ریو (شراب)پارٹیوں میں بھی کوکین سپلائی کرتا تھا۔ اسی ہفتے میں پولیس نے دو نائیجریائی شہریوں کو بھی 2 کروڑ سے زائد قیمت کی کوکین کے ساتھ پکڑا تھا۔ ہائی ڈوز کوکوکین کا نشہ دہلی میں ہائی پروفائل لوگوں کے سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ دہلی پولیس بھلے ہی آج تک کسی ریو پارٹی کو نہ پکڑ پائی ہو لیکن اس کا خود کا دعوی ہے کہ کوکین اس ریو پارٹیوں میں سپلائی ہورہی ہے۔ دہلی کے فارم ہاؤسوں کی پارٹیوں میں کوکین کی ڈیمانڈ زیادہ ہے۔ کوکین کے پھیلاؤ کا اندازہ اس بات سے لگ جاتا ہے کہ پچھلے سال 16 غیر ملکی کوین کے دھندے میں پکڑے گئے تھے ۔ یہ انتہائی تشویش کا موضوع ہے کہ راجدھانی میں منشیات کا کاروبار تیزی سے پھل پھول رہا ہے۔ سال2010ء کی بہ نسبت2011ء میں زیادہ مقدار میں پکڑی گئی منشیات سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔ساتھ ہی اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ دہلی کے لوگ دن بدن نشے کے جال میں پھنستے جارہے ہیں اس کے چلتے ڈرگس دہلی کے دیگر حصوں کے علاوہ ملک کی انتہائی محفوظ ترین مانی جانے والی تہاڑجیل تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔ دہلی پولیس کی کرائم برانچ نے سال2011ء میں منشیات کی اسمگلنگ میں 98 لوگوں کو پکڑا جن میں سے 16 غیر ملکی تھے۔ حالت یہ ہے کہ دہلی، این سی آر کی ان ریو پارٹیوں میں شراب کے ساتھ کوکین ملا کر پینے سے لوگ رات رات بھر ناچتے ہیں۔ یہاں تک کہ سیکس کرنے کے لئے بھی کوکین کا جم کر استعمال ہوتا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ اس سے ان کی سیکس پاور بڑھ جاتی ہے۔ یہ کوکین لاطینی امریکہ خاص کر کولمبیا سے آتی ہے اس لئے اس کی قیمت بھی دیگر نشیلی ادویات سے زیادہ ہوتی ہے۔ دہلی میں کوکین کے نشے کے لئے کئی بار بڑے بڑے ہائی پروفائل لوگ پکڑے گئے تھے۔ کرکٹ کھلاڑی منندر سنگھ، راہل مہاجن و ایک غیر ملکی سفارتخانے کے افسر کی بیٹی کی گرفتاری نے دہلی کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ راہل مہاجن معاملے کے بعد تو دہلی میں کوکین کا دھندہ کرنے والے غیر ملکی لوگوں پر خاصی سختی برتی گئی تھی لیکن اب آہستہ آہستہ یہ دھندہ پھر سے سر اٹھانے لگا ہے۔ اپنی سالانہ پریس کانفرنس میں دہلی کے پولیس کمشنر بی کے گپتا نے بتایا تھا ڈرگس پر 2012ء میں خاص توجہ رہے گی۔ پہلے کچھ اسپیشل دستے ہی ڈرگس اسمگلروں کو پکڑنے کا کام کرتے تھے لیکن پچھلے سال تھانے کی سطح پر بھی کارروائی کے احکامات دے دئے گئے ہیں۔ اسی کے چلتے گذشتہ برس میں 2010 کے مقابلے میں بھاری مقدار میں منشیات ضبط کی گئیں۔ نشے کی زد میں آئے زیادہ تر لوگ درمیانی کنبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ غور طلب ہے کہ ان دنوں راجدھانی میں ڈرگس کی کھیپ کئی ملکوں سے آرہی ہے۔ اس میں نیپال، بنگلہ دیش، پاکستان، افغانستان قابل ذکر ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس اسمگلنگ میں شمال مشرق کی کئی انتہا پسند تنظیمیں بھی شامل ہیں جو یوروپ ،ایشیا میں ڈرگس اسمگلنگ سے اپنی تنظیموں کو مضبوط کررہے ہیں۔ زیادہ تر اسمگلر کیریئر کی شکل میں خواتین کا استعمال کررہے ہیں وہیں کئی اسمگلر سرکاری ایجنسیوں کا بھی استعمال کررہے ہیں جس میں ریلوے ، پارسل، ہندوستانی ڈاک سروس وغیرہ شامل ہیں۔ پولیس کمشنر گپتا کا کہنا ہے کہ اگر کسی بھی تھانہ حلقے میں ڈرگس کی اسمگلنگ کا معاملہ سامنے آیا تو اس کی ذمہ داری بیٹ کانسٹیبل کی ہوگی۔ ساتھ ہی تھانہ انچارج بھی ذمہ دار ہوگا۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Delhi, Drugs, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟