نتن گڈکری کا تازہ میزائل نریندرمودی وزیر اعظم


Published On 26th January 2012
انل نریندر
اپنے متنازعہ بیانات کے لئے مشہور بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر نتن گڈکری نے پھر نیا واویلا کھڑا کردیا ہے۔ ایک ٹی وی چینل سے بات چیت میں ایک سوال کے جواب میں گڈکری نے کہا ''نریندر مودی پارٹی صدر بن سکتے ہیں، ان میں وزیر اعظم بننے کی بھی قابلیت ہے۔'' پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ اتنے قریب ہو ں اور بھاجپا صدر ایسابیان دے؟ اس میں پہلے کشواہا معاملے میں پارٹی کو منہ کی کھانی پڑی تھی۔ اس سے پارٹی سنبھلی نہیں نتن جی نے نیا تیر چل دیا۔ اس بیان سے جہاں بھاجپا میں کھلبلی مچی وہیں کانگریس اپنے ڈھنگ سے اس کا مطلب، مقصد نکال رہی ہے۔ کانگریس کا خیال ہے کہ نتن گڈکری نے یہ سوچا سمجھا بیان دیا ہے جس کا مقصد یوپی میں ہندو ووٹ بینک کو منظم کرنا ہے۔ مودی کی ساکھ کا فائدہ اٹھانے کی کوشش ہے اترپردیش کو خاص ذہن میں رکھ کر یہ بیان دیا گیا ہے۔ اترپردیش میں راہل گاندھی کے دوروں سے اپرکاسٹ ووٹ کانگریس کی طرف جھک رہا ہے۔ مایاوتی کا اپنا حساب بھی بھاجپا کے روایتی ووٹ بینک کو ہلاتا لگ رہا ہے۔ اسی کو ذہن میں رکھ کر پہلے اوما بھارتی کو یوپی میں آگے کیا گیا اور اب نریندر مودی کی وزیر اعظم کی بات اچھالی گئی۔ وہیں بھاجپا کے اندر اس بیان نے نئی ہلچل پیدا کردی ہے۔ نتن کے اس بیان کا پارٹی کے اندر یہ مطلب نکالا جارہا ہے کہ نریندر مودی گڈکری اور سنگھ کی پی ایم کی پہلی پسند ہوں گے۔لال کرشن اڈوانی، سشما سوراج اور ارون جیٹلی جیسے بڑے لیڈروں سے دور ہٹ کر گڈکری نے اب مودی کے ساتھ کھڑا ہونے کی کوشش کی ہے۔ کشواہا معاملے کے بعد پارٹی بچاؤ کے دوسرے مطلب بھی اب سامنے آرہے ہیں۔
این ڈی اے کے کنوینر اور جنتا دل کے قومی صدر شرد یادو نے نتن گڈکری کی اس رائے کی کھل کرمخالفت کی ہے جب یادوسے پوچھا گیا کہ اس بارے میں ان کا کیا کہنا ہے تو انہوں نے فوراً کہا کہ ابھی2014ء بہت دور ہے۔ آپ لوگ 2012ء کی بات کیجئے۔ جب یہ بات سامنے آئے گی تب ہم دیکھیں گے کہ اپنے پردھان کے بیان پر بھاجپا نے پیر کو کہا کہ یہ ایک غیر ضروری سوال کردیا گیا ہے اور اس کا موزوں جواب تھا ۔ پارٹی ترجمان روی شنکر پرساد سنگھ نے کہا کہ ایسے معاملوں پر پارٹی مجموعی طور پر فیصلے کرتی ہے۔ اس بارے میں دورائے نہیں ہے کہ مودی میں بھاجپا پردھان یا پردھان منتری بننے کی پوری صلاحیت ہے۔ سارا دیش اور ہم سبھی یہ بات مانتے ہیں ۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا لیکن کسی کو وزیر اعظم یا پارٹی صدر بنانا بھاجپاکا کوئی کنبہ پرستی والا معاملہ نہیں ہے۔ کون پارٹی صدر ہوگا یا وزیر اعظم کا امیدوار بنے گااسے پارٹی مناسب وقت پر طے کرے گی۔ بھاجپا اور کانگریس میں سب سے بڑا فرق یہ ہی ہے کہ کانگریس لیڈر شپ صاف ہے اور جو فیصلہ سونیا گاندھی کردیں وہ ہی آخری ہوتا ہے۔ بھاجپا میں تو درجنوں لیڈر سپریموں ہیں ۔کوئی ایک دوسرے کی بات ماننے کو تیار نہیں۔ جس کے منہ میں جو آتا ہے وہ کہہ دیتا ہے پھر ابھی لوک سبھا چناؤدور ہیں۔ ابھی سے وزیر اعظم امیدوار کی بات چھیڑنے سے کیا فائدہ ہوگا۔ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ بھاجپا کا پہلا مقصد تو یوپی میں اچھی کارکردگی دکھانے ،پنجاب اور اتراکھنڈ میں پھر سے سرکار بنانے کا ہونا چاہئے۔ انہیں کے نتائج سے ایک اشارہ ملے گاکے پارٹی جنتا کی نظروں میں کہاں کھڑی ہے؟ گھر بیٹھے بیٹھے خیالی پلاؤ بنانے سے شاید ہی کوئی فائدہ ہو؟
Anil Narendra, BJP, Congress, Daily Pratap, Narender Modi, Nitin Gadkari, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟