یوپی میں قومی ہیلتھ مشن کچھ لوگوں کیلئے مشن ’کھاؤ کماؤ‘ بن گیا


Published On 25th January 2012
انل نریندر
اترپردیش میں قومی دیہی ہیلتھ مشن (این آر ایچ ایم) میں مبینہ طور پر ہوئے ہزاروں کروڑ روپے کے گھوٹالے کے معاملے میں پیر کو مقرر پروجیکٹ افسر سنیل کمار ورما نے اپنے گھر میں گولی مار کر خودکشی کرلی۔ حال ہی میں سی بی آئی نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔ ورما کا نام اس گھوٹالے کی ایف آئی آر میں بھی درج تھا۔ اس گھوٹالے میں یہ چوتھی موت تھی۔ دراصل اترپردیش میں قومی دیہی ہیلتھ مشن کاپروگرام کیا شروع ہوا۔ ریاست کی سرکاری مشینری کے لئے مشن 'کھاؤ کماؤ' جیسا تحفہ مل گیا۔ کم سے کم سی اے جی کی رپورٹ کو دیکھنے سے تو ایسا ہی لگتا ہے۔ گھوٹالے باز ماں کی کوکھ اور زندگی موت کے درمیان جھولنے والے مریضوں کی دوائیوں تک میں گڑ بڑی کرنے سے نہیں چوکے۔ یعنی عوام کے ہیلتھ مشن کو شروع کرنے میں انسانیت اور حیوانیت کا تانڈو کرنے سے بھی سرکاری مشینری باز نہیں آئی۔ مرکزی سرکار کی جانب سے جنتا کو صحتمند رکھنے کے لئے چلائی گئی این آر ایچ ایم بے شک پروان نہیں چڑھ پائی لیکن سرکاری مشینری کا مشن کماؤ ضرور پروان چڑھ گیا۔ سی اے جی رپورٹ کے مطابق دسمبر 2010ء میں قومی پروگراموں کی نگرانی اور ان کے ویلیومقرر کرنے والے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی این پی ایم ای) نے ہیلتھ اسکول اسکیم کے تحت 10 کروڑ روپے سی ایم او کو دئے۔ جانچ میں پایا گیا کہ 16 اضلاع میں اس یوجنا کے تحت دوائی سپلائی کا کام حکام نے کاغذوں میں کولکتہ کی سی آئی لیباریٹری کرشمہ ہیلتھ کیئرلکھنؤ کو دیا دکھایا۔ اس میں جس دوا کی قیمت بازار میں مانا1 روپے40 پیسے تھی اس کی قیمت اسکول پہنچتے پہنچتے18 روپے تک پہنچ گئی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب سی اے جی کو شک ہوا تو معاملے کی تہہ تک پہنچا گیا تو جانچ میں پتہ چلا کہ کولکتہ میں قائم سی آئی لیباریٹری کے نام پر10 لاکھ روپے کے 13 بل دئے گئے اور جب انکم ٹیکس نے اس کی چھان بین کی تو سی آئی لیب نے صاف منع کردیا کے اس کا بل ہے ہی نہیں۔ اتنا ہی نہیں سرکار بیشک شرح آبادی کم کرنے کی کوشش کررہی ہو اور اس مشن کے تحت ہزاروں کروڑ روپے دے رہی ہے مگر اترپردیش کی سرکاری مشینری اس میں بھی سیند لگانے سے باز نہیں آئی۔ سی اے جی کے مطابق 'جننی سرکشا یوجنا'کے تحت ہیلتھ سینٹر میں بچہ پیدا کرنے والی خواتین کو 1400 روپے دینا تھا جبکہ بی پی ایل خاندان کی عورتوں کو گھر میں بھی بچہ پیدا کرنے کی صورت میں 500 روپے کی نقد مدد دینی تھی۔ ان عورتوں کو سمجھا بجھا کر ہیلتھ سینٹر یا ہسپتال جانے کے عوض میں آشا ورکروں کو 600 روپے تک معاوضہ ملتا ہے۔ یوپی میں 2005-11 کے درمیان اس اسکیم کے تحت 69 لاکھ خواتین کے لئے 1219 کروڑ روپے خرچ کئے گئے۔ ریاستی حکومت کے پروگرام تعمیل اسکیم کے تحت اس اسکیم کے 10 فیصدی معاملوں کی تصدیق کرنی تھی۔سچائی میں زچگی ہوئی ہے یا نہیں،اگر ہوئی ہے تو پیسہ دیا گیا یا نہیں۔ لیکن 2008 سے2011 کے درمیان اس اسکیم پر خرچ ہوئے 1085 کروڑ روپے کی تصدیق ہی سرکاری مشینری نہیں کرپائی۔اسی طرح نسبندی پر خرچ کئے گئے 181 کروڑ روپے میں وسیع پیمانے پر گھپلہ کیا گیا۔ انجکشن لگاؤ مہم کی جانچ پر پایا گیا کہ کرائے پر لی گئی گاڑیاں نقلی اسکوٹر، موپیڈ، موٹر سائیکل، ڈلیوری وین اور ٹریکٹر درحقیقت میں لئے ہی نہیں گئے تھے اور خرچہ دکھا دیا گیا۔ شاہجہاں پور کے جلال آباد ہیلتھ سینٹر نے جس نمبر کی گاڑی کو کرائے پر دکھایا وہ گاڑی ڈی ایم کی سرکاری کار تھی۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Mayawati, NRHM, Uttar Pradesh, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!