شرابیوں کوکھمبے سے باندھ کر پیٹا جانا چاہئے:انا


Published On 25th November 2011
انل نریندر
انا ہزارے کا ایک تازہ بیان تنازعات میں آگیا ہے۔ سماجی اصلاحات کے اپنے ایجنڈے کے تحت گاندھی وادی نیتا انا ہزارے نے شرابیوں کی شراب کی لت چھڑانے کے لئے ان کی پٹائی کرنے کی ہدایت دی ہے۔ ایک ٹی وی چینل سے بات چیت میں انہوں نے حالانکہ پٹائی کو آخری قدم بتایا ہے۔ انا سے جب پوچھا گیا شرابیوں کی لت چھڑانے کے لئے وہ کیا طریقہ اختیار کرنے کی صلاح دیتے ہیں تو انہوں نے کہا پہلے شرابیوں کو تین بار بات چیت سے سمجھاؤ ،اگر نہیں مانتے تو اسے مندر لے جاکر شراب نہ پینے کی قسم دلاؤ،اس کے بعد بھی نہیں سدھرے تو مندر کے سامنے کھمبے سے باندھ کر اس کی کھلے عام پٹائی کرو۔ یہ پوچھے جانے پر کیا انہوں نے یہ طریقہ اپنے گاؤں میں آزمایا ہے تو انہوں نے کہا ہاں کبھی کبھی ایسا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے گاؤں کے کچھ لوگ جو اب شراب چھوڑ چکے ہیں اب بھی ان سے کہتے ہیں اگر انہیں کھمبے سے نہیں باندھا گیا ہوتا تو وہ برباد ہوچکے ہوتے۔ انا ہزارے کے اس بیان پر تلخ نکتہ چینی ہورہی ہے۔ اس بارے میں ردعمل جاننے پر کانگریس کے ترجمان منیش تیواری نے کہا انا ہزارے کی تجویز طالبان کے فرمان کی طرح ہے۔ یہ طالبانی طریقے سے میل کھاتا ہے جو شرعی قانون کی تعمیل نہیں کرتے تو ان کو سزا دینے کے لئے کرتے تھے۔ کانگریس نیتا ستیہ برت چترویدی فرماتے ہیں ہزارے کا نظریہ اس معاملے میں بیحد پاکیزہ ہے مگر طریقہ غلط ہے۔ بھاجپا کی ترجمان نرملا سیتا رمن اور شاہنواز حسین نے بھی انا کے تبصرے کو صحیح نہیں مانا اور کہا ان کی پارٹی انا کے اس طریقے سے شراب چھڑانے کی حمایت نہیں کرتی۔ شراب نوشی سے لڑنے کے لئے 74 سالہ گاندھی وادی رضاکار کے اس نظریئے سے سائبر دنیا میں بھی ایک بحث شروع کردی ہے۔ بلاگ پر انا کے تبصرے کی مذمت کی گئی ہے حالانکہ کچھ بلاگر انا کے نظریئے کو صحیح مانتے ہیں کچھ نے کہا کہ گاندھی وادی انا ہزارے اپنی حدیں پار کررہے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ شراب پینا یا نہ پینا آدمی کا اپنا شخصی فیصلہ ہے۔ آپ شراب پینے والوں کو اس سے پیدا ہونے والی پریشانیوں سے واقف کراسکتے ہیں لیکن اسے مجبور کرنا شاید ٹھیک نہیں ہوگا۔ حکومتوں نے ممانعت کرکے بھی دیکھ لیا الٹا جتنا پابندی لگاؤگے اتنی ہی اس کی مان بڑھے گی۔ انا کی تجویز ان کے گاؤں میں تو چل سکتی ہے لیکن باقی دنیا میں شاید ہی یہ تجربہ مانا جائے۔
Anil Narendra, Anna Hazare, Daily Pratap, Mahatma Gandhi, Taliban, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟