عشرت جہاں فرضی مڈ بھیڑ تھی
Published On 24rd November 2011
انل نریندر
گجرات کی نریندر مودی سرکار کو گجرات ہائی کورٹ نے ایک زبردست جھٹکادیا ہے۔ 2004 کے عشرت جہاں معاملے کی جانچ کررہی اسپیشل انوسیٹی گیٹنگ ٹیم نے کہاہے کہ عشرت کو فرضی مڈ بھیڑ میں ماراگیا تھا۔ اپنی رپورٹ میں ایس آئی ٹی نے کہا ہے کہ عشرت اور دیگر تین کو مڈ بھیڑ کی تاریخ 15جون 2004 سے پہلے ماراگیا تھا۔ یہ تین لوگ جاوید شیخ عرف پرنیش پلئی، امجد علی رانا اورذیشان جوہرتھے۔ غورطلب ہے کہ احمد آباد کرائم برانچ نے 15جون 2005 کو ایک انڈیکا کار پکڑوانے کا دعوی کیاتھا۔ بعد میں اس نے چار لوگوں کو مڈ بھیڑ میں مار گرایا۔ اس مڈبھیڑ کوا نجام دینے والی ٹیم کی سربراہی آئی پی ایس ڈی جی بنجارہ کررہے تھے انہو ں نے مارے گئے لوگوں کو لشکر طیبہ سے جڑے ہونے کادعوی کیا تھا۔انہوں نے یہ بھی کہاتھا یہ سبھی نریندر مودی کو مارنے کے مشن پر تھے۔ ایس آئی ٹی نے گجرات ہائی کورٹ میں گزشتہ 18نومبر کو اپنی رپورٹ پیش کی تھی۔ جسٹس جینت پٹیل اور ابھیلاشہ کماری نے مڈبھیڑ میں شامل پولیس والو ں کے خلاف سیکشن 302(قتل) کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کاحکم دیا تھا۔ ہائی کورٹ کی ہدایت کے ساتھ اب کئی آئی پی ایس افسروں سمیت 24 سے زیادہ پولیس ملازمین کے خلاف معاملے میں ایف آئی آر درج ہوگی۔ ایس آئی ٹی کایہ نتیجہ خاص طور پر چونکانے والا ہے کہ ان لوگوں کو پہلے ہی کہیں گمنام جگہ مارڈالا گیا۔ چونکہ اس مڈ بھیڑ کے بعد کرائم برانچ نے دعوی کیاتھا۔ مارے گئے آتنکی نریندر مودی کو مارنے آئے تھے۔ اس لئے اگرکچھ لوگ اس نتیجے پرپہنچ رہے ہیں کہ پولس نے سرکار کی واہ واہی حاصل کرنے یا میڈل پانے کی خاطر چار لوگوں کو مڈ بھیڑ میں مارگرایا تو یہ ناقابل حالت ہے۔ گجرات پولیس پہلے ہی سے مڈ بھیڑ معاملے کے گھیرے میں آچکا ہے۔ اس معاملے میں ریاستی سرکار بھی کٹھگرے میں کھڑی ہے کیونکہ یہ پہلی مرتبہ نہیں جب اس پر فرضی مڈ بھیڑ کرانے کاالزام لگاہو۔ 2005 میں ہوئی اس مڈ بھیڑ میں گجرات پولیس نے خطرناک جرم سہراب الدین کو مارگرانے کادعوی کیاتھا۔ یہ محض اتفاق نہیں ہوسکتا یہ دعوی بھی جھوٹانکلا۔ اس فرضی مڈ بھیڑ کے سلسلہ میں تو خودگجرات کے سابق وزیرداخلہ شبیہ کے گھیرے میں ایس آئی میں ایس آئی ٹی کی رپورٹ کے حوالے سے بنچ نے کہاہے کہ انکاؤنٹر کی جوتاریخ دکھائی گئی ہے حالانکہ اس تاریخ کو انکاؤنٹر ہوا ہی نہیں تھا۔ مڈ بھیڑ کی جگہ کاتضاد ہے۔ جس سے مڈ بھیڑ فرضی لگتی ہے قابل ذکر ہے کہ تمانگ نے اپنی رپورٹ میں مڈ بھیڑ کی تاریخ 4جون 2004 بتائی گئی تھی۔ ساتھ ہی کہا ہے کہ جاوید کواس دن رات 8یا 9 بجے کے وقت میں ماراگیاتھا۔ باقی تین افراد کو 11سے 12 کی معیاد میں ٹھکانے لگایاگیا۔ اگلے دن 15جون کو پولیس انڈیکا کار چلا کریا ٹائنگ کرواردات کے پرچارت مقام پر پلاٹ کردیا۔ بے شک عشرت جہاں کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ لشکر ورکر تھی اور نریندر مودی کاقتل کرنے کے ارادے احمد آباد آئی تھی لیکن پھر بھی جس ڈھنگ سے گجرات پولیس نے اس کو مارا وہ کسی بھی انصاف پرست دیش کے لئے ناقابل قبول ہے۔ ان مقدموں کی جانچ اور کارروائی پر سوالیہ نشان لگتا ہے۔ بھلے ہی فی الحال گجرات پولیس فرضی مڈ بھیڑ کو لے کر کٹھگرے میں کھڑا ہوا لیکن حقیقت یہ توہے اس طرح کی مڈبھیڑ دیش کے دیگر حصوں میں بھی رہ رہ کر ہوتی رہتی ہے۔ یہ مسئلہ کتنا سنجیدہ ہے اس کے لئے ثبوت پولیس مظالم سے متعلق ان اعداد وشمار ملتے ہیں۔ جن میں اچھی خاصی تعداد میں فرضی مڈ بھیڑ ہوئی ہیں اور چونکہ ان کی جانچ خود پولیس کرتی ہے۔ سچائی سامنے نہیں آتی۔ فرضی مڈ بھیڑ اختیارات کابے جااستعمال ہوتا ہے اورمذہب سماج میں اس طرح کے عمل کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوسکتی۔ سابق داخلہ سکریٹری جی کے پلئی نے گجرات سرکار کے اس دعوے کی تصدیق کی ہے عشرت اور دیگر لوگ مشتبہ سرگرمیوں میں ملوث لشکرطیبہ کی ویب سائٹ عشرت کو شہید کادرج دیاتھا۔Anil Narendra, Batla House Encounter, Daily Pratap, Gujarat, Ishrat Jahan, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں