فیصلہ لینے میں مایاوتی منموہن سنگھ سے کئی کوس آگے
Published On 24rd November 2011
انل نریندر
یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ کہ بہن جی جو ٹھان لیتی ہیں کر کے دکھاتی ہیں۔مایاوتی نے محض 15منٹ میں اتر پردیش کی تقسیم کا ریزولیوشن پاس کراکر یہ ثابت کر دیا ہے کہ پیر کو ایوان میں ایک لائن کا ریزولیوشن رکھا کس کو شور غل کے دوران اکثریتی ووٹ سے منظور کر لیا گیا۔ اپوزیشن نے لمبے چوڑے پلان بنا رکھے تھے وہ دھرے کے دھرے رہ گئے۔بہن جی نے سب سے پہلے تو سال 2012-13 کا مصارف بل پاس کرایا اور اس کے ممبر ریاست کو چار حصوں میں تقسیم کا پرستاؤ پاس کرا دو روزہ اجلاس کو پندرہ منٹ میں ہی ملتوی کروا دیا۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی یہ نہیں چاہ رہی تھی کہ اسمبلی کے چناؤ سے پہلے راجیہ کی تقسیم کا ریزولیوشن آئے لیکن مایاوتی کو سیاسی طور پر یہ ٹھیک لگا اور انہوں نے آناً فاناً میں کیبنیٹ سے یہ پرستاؤ پاس کرایا۔اتنی پھرتی سے اسمبلی میں بھی یہ پاس کروا لیا۔بری طرح سے بکھری ہوئی اپوزیشن سرکار کی گھیرے بندی کے تمام منصوبوں کے باوجود کچھ نہیں کر سکی۔ایوان میں کانگریس،بسپا اور بھاجپا ممبران اسمبلی میں اتحاد کے بجائے سہرہ اپنے سر لینے کی دوڑ لگی رہی۔ اپوزیشن کی کمزوری کو بھانپ کر بسپا کی کمان خود مایاوتی نے سنبھالی اور اتر پردیش کے بٹوارے کا پرستاؤ پیش کر دیا گیا۔اپوزیشن کے تبصرے بھی پارٹی لائن کے ہی رہے۔ملائم سنگھ یادو کا کہنا تھا کہ محض 10سیکنڈ میں اسمبلی میں ساڑھے تین لائن پڑھ کر نئے راجیوں کی تقدیر نہیں لکھی جا سکتی۔کرپشن،مظالم کے سوالوں سے گھری ریاستی سرکار نے لوگوں کی توجہ ہٹانے کیلئے ریاست کے بٹوارے کا پانسہ پھینکا ہے۔بھاجپا کے نائب صدر مختار عباس نقوی نے کہا کہ فیصلہ چناوی ہتھکنڈہ ہے۔ ایوان کے اندر اور باہر یو پی اے اتحاد کی پارٹیوں نے مل کر اتر پردیش کو چار ریاستوں میں بانٹنے کا پرستاؤ تیار کیا۔بسپا اور کانگریس نے اپنی ناکامیوں سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کیلئے یہ حکمت عملی اپنائی تھی۔کانگریس کے لیڈرپرمود تیواری کا کہنا تھا کہ پہلے دوبارہ سے ریاستی کمیشن کا قیام ہونا چاہئے تھا۔سپا اور بھاجپا نے ویل میں گھس کر حالات کو گڑ بڑا دیا۔کانگریس بحث چاہتی تھی۔بعد میں اخبار نویسوں نے بہن جی سے پوچھا کہ کیا آپ اسمبلی کو بھنگ کرینگی۔بلا شبہ اس پرستاؤ کے پاس ہونے سے محض ریاست کی تقسیم نہیں ہونے جا رہی ہے اور مایاوتی بھی اچھی طرح جانتی ہونگی۔مایاوتی نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ ان میں فیصلہ کرنے کی ہمت ہے وہ کسی سے ڈرتی نہیں۔بدقسمتی سے اس معاملے میں سب سے قابل رحم حالت منموہن سنگھ سرکار کی ہے۔وہ سماج کے مفاد میں فیصلہ لینا تو دور رہا۔ خود اپنے مفاد کے فیصلے میں بھی ناکام رہے۔اس معاملے میں تو مایاوتی سردار منموہن سنگھ سے کہیں بہتر ثابت ہو رہی ہیں۔بسپا پر یہ الزام لگ رہا کہ اس نے سوموار کو ایوان کو چلانے میں منمانی کی ساری حد پار کر دی اور پھر یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ اسمبلی اسپیکر نے آئین کے مطابق فیصلے لئے اور قاعدے کے مطابق ایوان کو چلایا۔ لیکن سب کچھ قاعدے کے مطابق نہیں تھا۔اس کی تصدیق اس سے ہو رہی ہے کہ اپوزیشن کے الزامات کا جواب ایوان سے باہر دیا گیا۔یہ پہلی بار نہیں جب حکمراں فریق نے منمانے ایوان کی کارروائی چلائی ہے۔یہ ٹرینڈ بڑھتا جا رہا ہے اور اب اس نے خطرناک شکل اختیار کر لی ہے۔کچھ ریاستوں میں تو آئینی ایوان کو محض خانہ پوری کرنے کیلئے چلایا جانے لگا ہے۔بحث کیلئے تمام اشو ہونے کے باوجود اسمبلی اجلاس چھوٹے ہوتے جا رہے ہیں۔دیکھا جائے تو محض 15منٹ میں 20کروڑ لوگوں کا مستقبل یوں دھکا مکی میں نہیں طے کیا جا سکتا اور یہ مایاوتی بھی جانتی ہیں۔
Anil Narendra, Bahujan Samaj Party, Daily Pratap, Manmohan Singh, Mayawati, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں