مسلم پرسنل لاء قانون میں اصلاح کی مانگ




Published On 23rd November 2011
انل نریندر
ملک میں مسلم فیملی قانون میں اصلاح اور مسلم نجی قانون سیکشن میں دئے جانے کی مانگ اب زور پکڑ رہی ہے اس لئے بھارتیہ مسلم مہلا تحریک سے جڑی مسلم مہلا شکشا ، سلامتی، روزگار، قانون و صحت کے اشوز پر بیداری لانے و سیاسی چیتنا قائم کرنے میں لگی ہے۔ اب اترپردیش کے کئی شہروں میں بھارتیہ مسلم مہلا آندولن و پرچیہ سنستھا مشترکہ طور سے خواتین کے درمیان جا کر انہیں بااختیار بننے کی راہ دکھارہی ہے دیش میں مسلم خواتین کی حالت ہمیشہ سے بحث کاموضوع رہی ہے۔ مسلم خواتین کی حالت اور مسلم کنبہ قانون میں اصلاح کے امکان پچھلے کافی عرصہ سے مسلم آندولن وپرچیہ سنستھا چلارہی ہے۔ لکھنؤ ، سہارنپور، مظفر نگر سمیت اترپردیش کے کئی مختلف شہروں میں اس منچ کی طرف سے جو اشوز اٹھائے جارہے ہیں ان میں مسلم مہلا اب کافی دلچسپی لینے لگی ہے اب وہ خود چاہتی ہیں کہ ان کی زندگی کے فیصلے خاندانی اشو پر انہیں بھی سہارا ملے تاکہ اپنے فیصلے وہ خود کرسکے۔ بھارتیہ مسلم آندولن اب دیش کے پندرہ راجیوں میں سرگرم ہے اس آندولن سے وابستہ نائش حسن نے بتایا کہ وہ اس مسئلے کو ہرجگہ جا کر مسلم خواتین میں بیداری پیدا کررہی ہے۔ اس تحریک کو گاؤں تک لے جایا گیا ہے۔ قومی سطح پر وہ ایم پی پر دباؤ بنانے کے لئے بیداری وسیاسی چیتنا قائم کرنے کاکام کررہا ہے۔ وہ مانتی ہے کہ کوئی بھی سماج پسماندہ نہیں رہناچاہئے۔ آندولن بھارتیہ آئین کے دائرے میں اپنے اختیارات اور ترقی کی مانگ کو آگے بڑھانے میں بھروسہ رکھتا ہے۔ حسن نے بتایا کہ ایک طرفہ بھارتیہ آئین کی دفعہ 14,14,21,26,29,30 اور350اے ہندوستان کے سبھی شہریوں کے لئے یکساں مواقعوں کا اعلان کرتی ہے۔ ایک طرف قانونی برابری کی بات کرتی ہے تووہی دوسری طرف دیکھاجائے تو ان دفعات کو غیرضروری طورپر عمل میں نہیں لایاجارہا ہے۔ کسی بھی مذہب کے نجی قانون خواتین کو سیکورٹی نہیں دیتے جہاں تک مسلم پرسنل لاء کاسوال ہے وہ ایک آئینی عہد بند نہیں ہے۔ یہ قانون عورتوں کو سیکورٹی نہیں دیتا۔ تین طلاق کے واقعات آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں مسلم شادی سیکشن ایکٹ 1939 میں مسلم خواتین کو اختیار تو دیا لیکن مردوں کوایک طرف زبانی تین طلاق کے حق پر پابندی نہیں لگائی۔ جہاں مسلم مرد ثالثی کی کوئی کوشش کئے بغیر اپنی بیوی کو ایک طرفہ طلاق دے سکتا ہے شریعت میں کیا انتظامات کئے گئے ہیں اس سے وابستہ تشریحات کئی بہت سی جانی مانی قانونی ہستیوں نے بھی کی ہے لیکن کوئی آئینی قانون نہیں ہے۔ قانون کی تشریح کب تک قانون نہیں بنتا جب تک اسے پارلیمنٹ پاس نہیں کرتی۔ پارلیمنٹ صرف 1937,1939 و1986 کے قانون کو پاس کیا ہے۔نائش حسن نے بتایا کہ الجرائز میں خاندانی کورٹ 1984 ، مصرمیں یہ شخصی حالات ( ترمیم )قانون 1985 عراق میں شخصی حالات کا قانون (ترمیم) 1987 میں اردن میں شخصی حالات کاقانون 1976 کویت میں 1984 لیبیا میں بھی 1984 وغیرہ کئی ممالک میں نئی ترمیمات ہوئی ہے۔ لیکن بھارت میں ایسانہیں ہوا۔ ملکی مسلم فرقے اور مسلم خواتین کی خراب حالات کو دور کرنے میں بھروسہ کررہی ہے۔ لیکن مسلم پرسنل لاء پر بحث مسلم سماج کے سبھی طبقے دور بھاگتے ہیں اب دیش میں مسلم پرائیویٹ قانون کی دفعہ بنائے جانے کی ہر سطح پر مانگ اٹھائی جائے گی۔ سرکار مسلم خواتین کے لئے بات نہیں کرناچاہتی۔
Anil Narendra, BJP, Daily Pratap, L K Advani, Manmohan Singh, Rath Yatra, Sushma Swaraj, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!