چدمبرم کا بائیکاٹ سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ہے


Published On 25th November 2011
انل نریندر
پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس شروع ہوتے ہی پہلے ہی دن سے سیاسی سرگرمی کی آنچ تیزی دکھانے لگی ہے۔ اجلاس کے آغاز میں اور وزیر داخلہ پی چدمبرم کے بائیکاٹ سے لوک سبھا میں لیفٹ پارٹیوں کے نوٹس پر مہنگائی پر ہونے والی بحث میں بھی ایوان کا پارہ گرم ہوگیا۔ بڑھتی مہنگائی کے مسئلے پر اپوزیشن پارٹیوں کے تحریک التوا کے نوٹس پر بحث کے درمیان وزیر خزانہ پرنب مکھرجی نے اعتراف کیا کہ امید کے مطابق نتیجے حاصل نہیں ہوسکے۔ انہوں نے جیسا کہ اب ان کی عادت سی بن گئی ہے مہنگائی کا ٹھیکرہ ڈیمانڈ اور سپلائی میں عدم توازن، ڈالر کے مقابلے روپے کی قیمت میں گراوٹ اور دیگر بین الاقوامی اسباب پر پھوڑدیا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی ہے افراط زر شرح مارچ2012ء کے آخر تک 6.7 فیصد تک آجائے گی۔ پرنب دا کے بیان سے اپوزیشن بھڑک اٹھا۔ سابق وزیر خزانہ یشونت سنہا نے پرنب مکھرجی کے بیان کو نمبروں کا کھیل اور جنتا کو مایوس کرنے والا بتاتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر مہنگائی کا یہی حال رہا تو لوگ جلد ہی تشدد پر اتر آئیں گے۔ این ڈی اے ایوان کے پہلے ہی دن یہ اشارہ دے چکا ہے ۔وزیر داخلہ پی چدمبرم کے بائیکاٹ کے اپنے فیصلے پر پوری طرح عمل کریں گے۔ حالانکہ وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اپنے وزیر داخلہ کو بچانے کی پوری کوشش کی۔ انہوں نے کہا جہاں تک وزیر داخلہ کے بائیکاٹ کی بات ہے مجھے امید ہے سیاسی پارٹیاں اس طرح کے کسی قدم سے بچیں گی۔ کیونکہ وزیر داخلہ کے بائیکاٹ کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ دوسری طرف این ڈی اے کی جانب سے چدمبرم کے بائیکاٹ کو پوری طرح سے واجب قراردیتے ہوئے بھاجپا نے کہا یہ اپوزیشن کا جمہوری حق ہے۔ ٹو جی اسپیکٹرم معاملے میں وزیر اعظم کے نام لکھے وزیر خزانہ پرنب مکھرجی کے پرچے کو عام ہونے کے پیش نظرایسا کیا جانا فطری قدم ہے۔ بھاجپا کے سینئر لیڈر وینکیانائیڈو نے اخبار نویسوں سے کہا کانگریس ماضی گذشتہ میں جارج فرنانڈیز کے ساتھ ایسا کرچکی ہے جب بے قصور جارج فرنانڈیز کو انہوں نے چھ مہینے تک بولنے نہیں دیا تھا۔ اب یہ ایک اتفاق ہی ہے کہ اگر چدمبرم نے پہل کی ہوتی تو یہ گھوٹالہ روکا جاسکتا تھا۔چدمبر کو بھاجپا ٹوجی گھوٹالے میں اتنا ہی ذمہ دار مانتی ہے جتنا اے راجہ کو۔ اس کا کہنا ہے جب چدمبرم وزیر خزانہ ہوا کرتے تھے اس وقت راجہ جی جو بھی کررہے تھے ۔اس سبھی کے بارے میں نہ صرف چدمبرم کو واقفیت تھی بلکہ انہوں نے راجہ کی حمایت بھی کی تھی۔ انہوں نے راجہ کے اٹھائے گئے اقدامات کو اپنی رضامندی دی اگر وہ چاہتے تو اسی وقت اس گھوٹالے کو ہونے سے روک سکتے تھے۔ بھاجپا نے اپنے الزامات کی بنیاد پر وزارت مالیات کے پچھلے سال وزیر اعظم کے دفتر کو بھیجے گئے اس نوٹ کو بھی جواز بنایا جو اس سال 25 مارچ کو بھیجا گیا تھا۔ اس نوٹ سے صاف ہوجاتا ہے کہ ٹو جی اسپیکٹرم الاٹمنٹ کی نیلامی کے بجائے ''پہلے آؤ پہلے پاؤ'' کی پالیسی بنانے کے لئے بھی وزیر خزانہ کی شکل میں چدمبرم نے اپنی منظوری دی تھی۔ یہ ہی نہیں راجہ نے باقاعدہ چدمبرم کو اس بارے میں خط بھی لکھا اور میٹنگ بھی کی تھی۔ ایسے میں چدمبرم اس گھوٹالے کیلئے اتنے ہی ذمہ دار ہیں جتنے راجہ۔ دراصل چدمبرم کا بائیکاٹ کرکے این ڈی اے ایک تیر سے کئی نشانے لگانے کی کوشش کی ہے۔ حکومت اور چدمبرم کے لئے ایک عجیب و غریب صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ وہیں چدمبرم کو پسند نہ کرنے والے ٹیم انا کے لوگ بابا رام دیو اور تاملناڈو کی چیف منسٹر جے للتا تک نے بھی ایک میسج بھیجا ہے۔ بائیکاٹ کا وقت ماننا پڑے گا کہ اچھا ہے جنتا پارٹی کے صدر ڈاکٹر سبرامنیم سوامی کی اپیل پر یہ معاملہ عدالت میں ہے۔ چدمبرم کی لوک سبھا سیٹ بھی خطرے میں ہے کیونکہ ان کے چناؤ کے خلاف ایک عرضی کا فیصلہ کبھی بھی آسکتا ہے۔ ڈاکٹر سوامی کی ڈیمانڈ پر سی بی آئی کو ٹی جی سے وابستہ کاغذات دینے پڑے ہیں۔ سوامی دعوی کررہے ہیں کہ چدمبرم کو پوری جانکاری تھی اور وہ اسے دستاویزات کے ساتھ ثابت بھی کرسکتے ہیں۔ این ڈی اے نے نہ صرف دباؤ بنایا بلکہ ایک سیاسی پیغام بھی دے دیا ہے۔ بابا رام دیو اور ان کے ساتھ رام لیلا میدان میں بیٹھے لوگوں پر پولیس کارروائی کے پیچھے بھی وزیر داخلہ کا حکم مانا جارہا تھا۔ بابا رام دیو کے حمایتیوں کی طرح ٹیم انا کے بھی کافی لوگ مانتے ہیں کہ انا اور ساتھیوں کی گرفتاری اور اس کے بعد معاملے کو الجھانے میں وزیر داخلہ اور وزیر انسانی وسائل کپل سبل کا خاص رول رہا۔ ادھر تاملناڈو کی وزیر اعلی جے للتا کو اپنی ہی ریاست کے چدمبرم کو ایک آنکھ نہیں بھاتیں۔یہ بھی غور طلب ہے کہ گذشتہ ایتوار کو جے للتا کی پہل پر انا ڈی ایم کے کے تھمبی دورئی رام لیلا میدان میں ایل کے اڈوانی کی ریلی میں آئے تھے۔ اس کے ایک دن بعد چدمبرم کے بائیکاٹ کا فیصلہ ہوگیا۔ جے للتا ممکن ہے مستقبل میں این ڈی اے سے جڑ جائیں۔ کل ملاکر بھاجپا کو لگتا ہے ان کے بائیکاٹ کی پالیسی صحیح سمت میں صحیح قدم ہے۔
2G, A Raja, Anil Narendra, BJP, CBI, Congress, Daily Pratap, Jayalalitha, L K Advani, P. Chidambaram, Rath Yatra, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟