ٹوجی گھوٹالے میں کارپوریٹ افسروں کو ملی ضمانت



Published On 26th November 2011
انل نریندر
ٹو جی اسپیکٹرم گھوٹالے کے معاملے میں پہلی مرتبہ کسی کو ضمانت ملی ہے۔ سپریم کورٹ نے بدھوار کو پانچ کارپوریٹ کمپنیوں کے ملزم افسرو ں کو ضمانت دے دی ہے۔ ضمانت پانے والے ہیں سنجے چندرا ، ونود گوئنکا، ہری نائر، گوتم دوشی اور سریندر تپارا۔ ملزمان نے نچلی عدالت اور ہائیکورٹ میں ضمانت عرضی خارج ہونے پر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا معاملے میں ملزمان کے خلاف اقتصادی جرائم کا الزام ہے اور اگر یہ ثابت ہوتا ہے اس سے دیش کی معیشت کو خطرہ ہوسکتا ہے لیکن سی بی آئی نے یہ نہیں کہا کہ ضمانت پر رہا ہونے کے بعد ملزم ثبوتوں کو متاثر کرسکتے ہیں۔ ہم ایسی کوئی وجہ نہیں دیکھتے کہ جس سے ملزم کو حراست میں رکھا جائے اور وہ بھی تب تک جب اس معاملے میں چھان بین پوری ہوچکی ہے اور چارج شیٹ داخل ہوچکی ہے۔ ملزمان چھ مہینے سے زیادہ جیل میں رہ چکے ہیں اس معاملے میں انہیں حراست میں رکھنے کا کوئی مقصد پورا نہیں ہوتا۔ ایسے میں ملزمان کو پانچ پانچ لاکھ روپے کے بونڈ پر ضمانت دینے کا حکم صادر کیا جاتا ہے۔ عدالت نے ضمانت دینے کے ساتھ ساتھ کچھ شرطیں بھی لگائی ہیں۔ انہیں ضمانت دئے جانے کے بعد کنی موجھی سمیت چھ ملزمان کو ضمانت ملنے کی امید بڑھ گئی ہے۔ ٹوجی گھوٹالے میں ابھی بھی2 فروری سے اے راجہ بند ہیں۔کنی موجھی20 مئی سے تہاڑ جیل میں ہیں ۔ شرد کمار ( ایم ڈی کلیگنر ٹی وی) بھی 20 مئی سے بند ہیں۔ آر کے چندولیا 2 فروری کو جیل میں گئے تھے۔ سدھارتھ بہورہ جو سابق ٹیلی کام سکریٹری بھی ہیں 2 فروری سے جیل میں ہیں۔ شاہد عثمان بلوا سوان کے پرموٹر 2 فروری سے تہاڑ جیل میں ہیں۔ آصف بلوا (شاہد کا بھائی) 29 مارچ سے جیل میں ہیں۔ راجیو اگروال ڈائریکٹر کسے گاؤں فوڈس اینڈ ویجی ٹیبل پرائیویٹ لمیٹڈ29 مارچ کو جیل گئے تھے۔ کریم نورانی جو ایک فلم پروڈیوسر ہیں اور شاہ رخ خان کے دوست بھی ہیں 20 مارچ سے تہاڑ جیل میں بند ہیں۔
کسی مجرمانہ معاملے میں ملزم کو کتنی میعاد تک جوڈیشیل حراست یعنی جیل میں رکھا جائے اور کب اسے ضمانت ملنی چاہئے یہ سوال اکثر اٹھتا ہے۔ ان دنوں بھی یہ سوال زیر بحث ہے۔ کچھ دن پہلے دگوجے سنگھ نے بھی ایسے ہی سوال اٹھائے تھے اور کہا تھا کسی ملزم کے خلاف چارج شیٹ داخل ہونے کے بعد اسے جیل میں رکھنے کا کوئی جواز پیدا نہیں ہوتا اس لئے اسے ضمانت ملنی چاہئے۔ حالانکہ ان کے اس بیان کی کافی تنقید ہوئی تھی۔ اس میں کہا گیا تھا کہ وہ عدالتوں کو ہدایت دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ دگوجے سنگھ کیونکہ ایک منجھے ہوئے سیاستداں ہیں اس لئے ان کے بیان پر رائے زنی ہونا فطری بات ہے لیکن کچھ عرصے پہلے خود سپریم کورٹ کی ایک تین نفری بنچ نے کہا تھا کہ وہ زیر بحث معاملوں میں ملزمان کو ضمانت نہ دینے کی عدالتوں کی مبینہ نئے ٹرینڈ کی پڑتال کریں گے کیونکہ یہ ٹرینڈ اس کے ذریعے قائم عدلیہ اصول کے خلاف ہے جو کہتا ہے کہ ضمانت ایک قاعدہ ہے اور جیل ایک مصیبت ہے۔ سپریم کورٹ کی یہ پہل یقینی ہی لائق تحسین ہے لیکن سوال اٹھتا ہے کہ صرف ہائی پروفائل معاملوں پر ہی کیوں چھوٹے موٹے معاملوں میں بھی ملزمان کو عدالت کے برسوں تک چکر لگانے پڑتے ہیں۔ جب انہیں ضمانت ملتی ہے یا مقدمے کا فیصلہ آتا ہے اس وقت تک وہ سزا سے زیادہ وقت تو جیل میں گذار دیتے ہیں۔ تہاڑ جیل میں زیر سماعت قیدیوں کی تعداد دیکھی جائے تو نچلی عدالتوں کے ضمانت نہ دینے کی وجہ سے بہت سے ملزمان جیل میں بند پڑے رہتے ہیں۔ جہاں تک ٹو جی اسپیکٹرم مقدمے کا تعلق ہے جیل بھیجنا تو ٹھیک ہے لیکن اس سے زیادہ اہم ہے پیسوں کی برآمدگی ۔ اور اس سمت میں نہ تو حکومت اور نہ ہی سی بی آئی کوئی ٹھوس قدم اٹھا رہی ہے۔ ایک لاکھ 60-70 ہزار کروڑ کے اس گھوٹالے میں آپ نے درجنوں لوگوں کو اندر تو کردیا لیکن جو پیسہ انہوں نے لوٹا وہ دیش کا ورثہ ہے اس کا کیا ہوا؟ کنی موجھی اور دیگر کی اب ضمانت ہوجائے گی۔ مقدمہ برسوں تک چلتا رہے گا۔آخر میں کچھ کو سزا بھی ہوسکتی ہے لیکن بنیادی سوال وہی اٹھتا ہے کہ لوٹے دھن کی برآمدگی کیسے ہوگی؟
2G, A Raja, Anil Narendra, Daily Pratap, Karim Morani, Reliance Telecom, Shahid Balwa, Supreme Court, Swan Telecom, Unitech Wireless, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!