نیتاؤں کے دباؤ کے سبب جانچ ایجنسیوں کی ساکھ پر بٹّہ



Published On 20th November 2011
انل نریندر
ہماری جانچ ایجنسیوں کی جانب سے مختلف معاملوں میں کی گئی جانچ عدالتوں میں ٹک نہیں پارہی ہے۔ اس سے سوال اٹھتا ہے کہ کیا سیاستداں جانچ ایجنسیوں کے معاملوں کی جانچ کو متاثر کرتے ہیں؟ سیاستداں دباؤ کے چلتے چاہے وہ دہلی پولیس ہو یا قومی سراغ رساں ایجنسی (این آئی اے) یا پھر سی بی آئی ہی کیوں نہ ہو۔ پچھلے 15 روز میں کم سے کم چار ایسے معاملے سامنے آئے ہیں جن میں عدالتوں نے ان ایجنسیوں کو پھٹکار لگائی ہے۔ اور ان کے جانچ کرنے کے طریقے اور نتیجوں دونوں پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔ پہلا معاملہ مالیگاؤں بم دھماکے کا ہے۔ ایک عدالت نے سال2006ء میں مالیگاؤں بم دھماکے کے معاملے میں9 ملزمان میں سے 7 کورہا کردیا ہے۔ این آئی اے نے کہا کہ سلمان فارسی، شبیر محمد، زاہد اور فاروق گوئی انصاری کو ممبئی کی آرتھر جیل سے رہا کردیا گیا۔ خانہ پوری ہونے کے بعد ایک دیگر ملزم ابرار احمد کو بھی واچکولہ جیل سے چھوڑاگیا۔ معاملے کے دو دیگر ملزمان آصف خان اور محمد علی کو بھی ضمانت مل گئی لیکن انہیں چھوڑا نہیں گیا کیونکہ وہ 2006ء کے ممبئی ٹرین سلسلہ وار دھماکوں میں بھی ملزم ہیں۔ معاملے کی جانچ کررہی قومی سراغ رساں ایجنسی (این آئی اے ) نے رہائی کی مخالفت بھی نہیں کی۔ این آئی اے نے دلیل دی کہ مکہ مسجد بم دھماکے معاملے میں گرفتار سوامی اسیمانند کے انکشاف کے بعد اس نے تازہ ثبوتوں کے علاوہ سابقہ کی جانچ ایجنسی اے ٹی ایس اور سی بی آئی کے ذریعے اکٹھے کئے گئے ثبوتوں کا جائزہ لیا تھا۔ این آئی اے نے کہا کہ ''حقائق اور حالات کی بنیاد پر کافی غور و خوض کے بعد سبھی9 ملزمان کی ضمانت عرضیوں کی مخالفت نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جنہیں ماضی گذشتہ میں گرفتار کیا گیا تھا اور ملزم بنایا گیا تھا۔''
دوسرا معاملہ سہراب الدین شیخ مد بھیڑ سے متعلق ہے۔ سپریم کورٹ نے سہراب الدین شیخ فرضی مد بھیڑ معاملے میں گجرات کے سابق وزیر داخلہ امت شاہ کے مبینہ کردار پر سی بی آئی کو سخت پھٹکار لگائی ہے۔ سی بی آئی نے کئی گمنام دستاویزات کو شاہ کی پھروتی ریکٹ میں مبینہ کردار سے جڑی شکایتوں کے طور پر پیش کیا۔ ایجنسی کے اس قدم کو عدالت نے کسی کو خوش کرنے کا قدم بتایا۔ جسٹس آفتاب عالم اور جسٹس رنجنا پرکاش دیسائی کی ڈویژن بنچ نے کہا ''یہ سچائی ہے کہ کسی کو خوش کرنے کے لئے اٹھایا گیا قدم ہے جو بالکل غلط ہے۔'' سی بی آئی نے امت شاہ کے خلاف ایسی تقریباً 200 شکایتیں پیش کی تھیں جنہیں دیکھنے کے بعد بنچ نے کہا ''آپ نے (سی بی آئی نے) ہم سے کہا ہے کہ پردیش سرکار نے ان شکایتوں پر کوئی کارروائی نہیں کی۔ ان دستاویزات پر عدالت کی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ یہ شکایتیں پوری طرح سے بکواس لگ رہی ہیں۔'' سی بی آئی نے گجرات اور دیگر عدالتوں کی جانب سے شاہ کو ضمانت دئے جانے کو چیلنج کیا ہے۔ اس عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا ''آپ کو ہمارا سب سے اچھا سراغ رساں مانا جاتا ہے اور اب آپ کو ان خامیوں کا جواب دینا ہوگا۔'' سماعت کے دوران شاہ نے الزام لگایا کہ وہ سیاسی سازش کا شکار ہوئے ہیں اور سی بی آئی نے انہیں اس معاملے میں غلط پھنسایا ہے۔ شاہ کے وکیل رام جیٹھ ملانی نے کہا کہ شاہ سیاسی سازش کا شکار ہوئے ہیں اور سی بی آئی بھی اس کا ایک حصہ ہے۔ تیسرا کیس بھی سی بی آئی سے متعلق ہے ۔ ٹو جی اسپیکٹرم الاٹمنٹ گھوٹالے کی سماعت کررہی خصوصی جج اوپی سینی کی عدالت میں عزت مآب جج موصوفہ نے سی بی آئی سے ثبوتوں کو مٹانے کے لگ رہے الزامات پر جانکاری مانگی ہے۔ سی بی آئی کو23 نومبر تک جواب دینا ہے۔ سی بی آئی کو ملزمان نے یہ کہتے ہوئے کہ الزامات طے کرنے کے حکم میں جو غلطیاں اور تضاد ہیں ،غیر جانبدار سماعت کے لئے ان میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ ملزم ونود گوئنکا نے سی بی آئی پر الزام لگایا ہے گواہ کو غیر قانونی طور پر بلا کر ثبوت متاثر کئے جارہے ہیں۔ بدھوار کو گواہی دے رہے ریلائنس افسر اے این سنتھورین نے بتایا تھا کہ اس کے بیان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔ گواہ نے دعوی کیا کہ اس نے ہری نائر کے دستخط کی کبھی پہچان نہیں کی تھی۔اس کے باوجود سی بی آئی نے اسے پیش کردیا ہے۔ گوئنکا کے وکیل مجید مینن نے کہا کہ گواہ کی یادداشت تازہ کرنے کے نام پر سی بی آئی کے ذریعے اپنائی گئی کارروائی کے معاملے کو متاثر کرنے کی طرح ہے۔انہوں نے کہا کہ سی بی آئی کو حکم دیا جائے کہ یادداشت تازہ کرنے کے نام پر گواہ یا ثبوتوں کو متاثر نہ کرے۔ چوتھا معاملہ ہماری دہلی پولیس سے متعلق ہے۔ دہلی ہائی کورٹ نے بدھوار کو صاف کیا کہ نوٹ کے بدلے ووٹ معاملہ کرپشن نہیں بلکہ محض ایک اسٹنگ آپریشن تھا۔ عدالت نے کہا ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے جس سے ثابت ہو کہ معاملے کے ملزم تینوں ملزمان نے رشوت مانگی یا لی۔ اتنا ہی نہیں اگر وہ رشوت لیتے تو چپ چاپ لیتے نہ کہ ٹی وی چینل کے سامنے لے کر اسے اس طرح سے پارلیمنٹ میں پیش کرتے۔ وہیں ہماری پارلیمنٹ بالاتر ہے اور پارلیمنٹ کے ذریعے تشکیل جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی نے بھی ثبوت نہ ہونے پر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ عدالت نے یہ رائے زنی بھاجپا کے موجودہ ایم پی اشوک ارگل اور دو سابق ایم پی پھگن سنگھ کلستے اور مہاویر سنگھ بھگورا سمیت سبھی چھ ملزمان کی ضمانت منظور کرتے ہوئے کی تھی۔جسٹس ایم ایل مہتہ نے اپنے فیصلے میں کہا ایف آئی آر اور چارج شیٹ کا جائزہ لینے سے وہ محسوس کرتے ہیں کہ ممبران پارلیمنٹ و دیگر کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے اس کے علاوہ سی ایف ایس ایل کی رپورٹ سے بھی صاف ہے کہ ٹی وی چینل کی جانب سے اسٹنگ آپریشن کی سی ڈی و آڈیو میں کسی طرح کی چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی ہے کسی بھی ایم پی اور دیگر نے مبینہ طور پر رشوت کی رقم سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ وہیں دوسری طرف بچاؤ فریق کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اس ممبر پارلیمنٹ و دیگر ملزمان کا مقصد محض کانگریس اور سماجوادی پارٹی کی ملی بھگت کا پردہ فاش کرنا تھا۔
مندرجہ ذیل معاملوں سے صاف ہے کہ سیاستدانوں کے دباؤ کے سبب ہماری جانچ ایجنسیوں کی ساکھ پر بھی دھبہ لگ رہاہے۔ سیاستداں زبردستی اپنے سیاسی مفاد کے لئے جانچ ایجنسیوں پر ناجائز دباؤ ڈلواکر جھوٹے معاملے بنواتے ہیں جو عدالتوں میں جاکر ٹھہر نہیں پاتے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ سلسلہ چلتا رہے گااور جلد ایک بھی ایجنسی نہیں ہوگی جس کی جانچ پر عوام بھروسہ کرسکے۔
2G, Amar Singh, Anil Narendra, Cash for Vote Scam, CBI, Daily Pratap, delhi Police, NIA, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!