سیاسی آقاؤ کے اشارے پر نوٹس بھیجا گیا، اروند کیجریوال
انا ہزارے کی تحریک سے غصے سے بھری منموہن سنگھ سرکار نے اب ان لوگوں کو نشان زد کرکے نشانے پر لینا شروع کردیا ہے جنہوں نے اس کی مٹی پلید کرنے میں سرگرم کردار نبھایا تھا۔ میڈیا پر لگام لگانے کیلئے مخصوص گروپ بنانے کی بھی خبر ہے۔ انا کے اسٹیج سے سرکار کو برا بھلا کہنے والے فلم اداکار اوم پوری ، کیرن بیدی پر پہلے ہی ہتک عزت کا مقدمہ درج ہوچکا ہے۔ ممبران پارلیمنٹ کے خلاف متنازعہ تبصرے کو لیکر پارلیمنٹ میں تحریک استحقاق کی خلاف ورزی کے معاملے کا سامنا کررہی کیرن بیدی کا ٹیم انا اب کھل کر ساتھ دے رہی ہے۔ اروند کیجریوال نے کہا پوری ٹیم متحد ہوکر کیرن بیدی کے ساتھ ہے۔ اس طرح کے قدم سے جنتا کے درمیان یہ تاثر جائے گا کہ ممبران پارلیمنٹ ان سے بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا جب نوٹس ملے گا تو وہ اس پر جواب دیں گی۔ ٹیم انا کے ایک اور اہم ساتھی سابق مرکزی وزیر قانون شانتی بھوشن سی ڈی معاملے میں پھنستے نظر آرہے ہیں۔ دہلی پولیس نے سی ڈی معاملے میں عدالت میں داخل اپنی کلوزر رپورٹ میں جانکاری دی ہے کے سی ڈی میں سپا چیف ملائم سنگھ یادو اور شانتی بھوشن کی بات چیت کا ٹیپ اصلی ہے۔ اس میں کسی طرح کی چھیڑ چھاڑ کا ثبوت نہیں ہے۔ اگر یہ سی ڈی اصلی ہے تو یہ سیدھے سیدھے سپریم کورٹ میں بڑا بدعنوانی کا معاملہ بنتا ہے۔ دہلی پولیس کے ذرائع کے مطابق اس معاملے میں ان کے پاس ایک چشم دید گواہ بھی ہے،وہ ہے ممبر پارلیمنٹ امر سنگھ۔ انہوں نے پولیس کو پوچھ تاچھ میں بتایا ہے کہ انہوں نے اپنے گھر پر لینڈ لائن فون سے خودپرشانت بھوشن سے ملائم سنگھ کی بات کروائی تھی۔
منموہن سنگھ حکومت کو سب سے زیادہ پریشانی اروند کیجریوال سے ہے۔ ٹیم انا میں کیجریوال کو وہ سب سے بڑا روڑا مانتی ہے۔ اب ان کو بھی کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ اروند کیجریوال کو بھارتیہ محصولاتی سروس سے 2006 میں دئے گئے استعفے کو مرکزی حکومت نے اب تک منظوری نہیں دی تھی۔ سروس شرطوں کے مطابق مرکزی حکومت نے وقت سے پہلے نوکری چھوڑنے کے لئے ان سے 3 لاکھ روپے کی مانگ کی تھی۔ اب یہ رقم بڑھ کر 9 لاکھ روپے ہوگئی ہے۔ کیجریوال نے اس میں چھوٹ کے لئے درخواست دی تھی جس پر اب تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ سرکارسے سیدھے ٹکراؤ کے بعد مرکزی سرکار کا محکمہ پرسنل کیجریوال کے استعفے کا معاملہ پھر سے کھول سکتا ہے۔ محصولاتی سروس کے افسر کے طور پر کیجریوال نے سال2000ء میں دو سال کی ’اسٹڈی لیو‘ لی تھی۔ اس دوران مرکزی سرکار کے قواعد کے مطابق انہیں تنخواہ نہیں دی گئی تھی۔ اس مدت کے بعد انہوں نے دو سال بغیر تنخواہ کے تعلیمی مطالع چھٹی لی تھی۔ سروس شرطوں کے مطابق چھٹی سے لوٹنے کے بعد کم سے کم تین سال نوکری کرنی پڑتی ہے لیکن کیجریوال نے اس سے پہلے ہی 2006 ء میں استعفیٰ دے دیا۔ ایسے میں ڈی او پی ٹی نے ان سے 3 لاکھ روپے کا مطالبہ کیا۔ کیجریوال نے پھر درخواست کی کہ ان کے پاس اتنی رقم نہیں ہے اس لئے انہیں اس میں چھوٹ دے دی جائے۔ مگر اب تک محکمے نے اس پر کوئی قطعی فیصلہ نہیں لیا۔ حالانکہ استعفے کے فوراً بعد کیجریوال کو اس سے بڑی رقم میگسیسے ایوارڈ کے طور پر ملی تھی۔
جمعہ کے روز اروند کیجریوال نے الزام لگایا کہ انہیں9 لاکھ روپے کی ادائیگی کا نوٹس سیاسی آقاؤ کے اشارے پر بھیجا گیا ہے۔ لوکپال کے مسئلے پر انا کے ذریعے انشن کرنے سے دس دن پہلے انکم ٹیکس نے 5 اگست کو کیجریوال کو ایک نوٹس بھیجا۔ نوٹس میں کیجریوال سے ان کے انکم ٹیکس کمیشنر رہتے مطالع چھٹی پر جانکاری کی میعاد کی تنخواہ اور اس پر لگے سود اور قرض کے اوپر دوبارہ سود سمیت بقایا رقم کو ملا کر کل 9.27 لاکھ روپے کی ادائیگی کرنے کو کہا گیا ہے۔کیجریوال نے کہا انکم ٹیکس محکمے نے میرے دو سال چھٹی پر رہنے کے دوران تعمیل رہے بانڈ کی غلط تشریح کی گئی ہے۔ میں نے بانڈ کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ انکم ٹیکس محکمے نے یہ نوٹس سیاسی آقاؤں کے دباؤ میں بھیجا ہے۔ہزارے کے ایک دوسرے ساتھی ورکر پرشانت بھوشن نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ سرکار نے سبق نہیں لیا اور وہ گھناؤنے طریقے اپنانے پر اترآئی ہے۔ قابل ذکر ہے انکم ٹیکس محکمے سے کیجریوال کو بھیجے گئے نوٹس میں ان سے دو سال کی تنخواہ کی شکل میں 3.54 لاکھ روپے او ر اس پر سود کی شکل میں4.16 لاکھ روپے کمپیوٹر کے قرض کی بقایا رقم کی شکل میں 51 ہزار روپے اور اس پر سود کی شکل میں 1.04 لاکھ روپے کی ادائیگی کرنے کو کہا گیا ہے۔ اس طرح انہیں 9 لاکھ سے زائد روپے کی رقم دینے کو کہا گیا ہے۔
منموہن سنگھ حکومت کو سب سے زیادہ پریشانی اروند کیجریوال سے ہے۔ ٹیم انا میں کیجریوال کو وہ سب سے بڑا روڑا مانتی ہے۔ اب ان کو بھی کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ اروند کیجریوال کو بھارتیہ محصولاتی سروس سے 2006 میں دئے گئے استعفے کو مرکزی حکومت نے اب تک منظوری نہیں دی تھی۔ سروس شرطوں کے مطابق مرکزی حکومت نے وقت سے پہلے نوکری چھوڑنے کے لئے ان سے 3 لاکھ روپے کی مانگ کی تھی۔ اب یہ رقم بڑھ کر 9 لاکھ روپے ہوگئی ہے۔ کیجریوال نے اس میں چھوٹ کے لئے درخواست دی تھی جس پر اب تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ سرکارسے سیدھے ٹکراؤ کے بعد مرکزی سرکار کا محکمہ پرسنل کیجریوال کے استعفے کا معاملہ پھر سے کھول سکتا ہے۔ محصولاتی سروس کے افسر کے طور پر کیجریوال نے سال2000ء میں دو سال کی ’اسٹڈی لیو‘ لی تھی۔ اس دوران مرکزی سرکار کے قواعد کے مطابق انہیں تنخواہ نہیں دی گئی تھی۔ اس مدت کے بعد انہوں نے دو سال بغیر تنخواہ کے تعلیمی مطالع چھٹی لی تھی۔ سروس شرطوں کے مطابق چھٹی سے لوٹنے کے بعد کم سے کم تین سال نوکری کرنی پڑتی ہے لیکن کیجریوال نے اس سے پہلے ہی 2006 ء میں استعفیٰ دے دیا۔ ایسے میں ڈی او پی ٹی نے ان سے 3 لاکھ روپے کا مطالبہ کیا۔ کیجریوال نے پھر درخواست کی کہ ان کے پاس اتنی رقم نہیں ہے اس لئے انہیں اس میں چھوٹ دے دی جائے۔ مگر اب تک محکمے نے اس پر کوئی قطعی فیصلہ نہیں لیا۔ حالانکہ استعفے کے فوراً بعد کیجریوال کو اس سے بڑی رقم میگسیسے ایوارڈ کے طور پر ملی تھی۔
جمعہ کے روز اروند کیجریوال نے الزام لگایا کہ انہیں9 لاکھ روپے کی ادائیگی کا نوٹس سیاسی آقاؤ کے اشارے پر بھیجا گیا ہے۔ لوکپال کے مسئلے پر انا کے ذریعے انشن کرنے سے دس دن پہلے انکم ٹیکس نے 5 اگست کو کیجریوال کو ایک نوٹس بھیجا۔ نوٹس میں کیجریوال سے ان کے انکم ٹیکس کمیشنر رہتے مطالع چھٹی پر جانکاری کی میعاد کی تنخواہ اور اس پر لگے سود اور قرض کے اوپر دوبارہ سود سمیت بقایا رقم کو ملا کر کل 9.27 لاکھ روپے کی ادائیگی کرنے کو کہا گیا ہے۔کیجریوال نے کہا انکم ٹیکس محکمے نے میرے دو سال چھٹی پر رہنے کے دوران تعمیل رہے بانڈ کی غلط تشریح کی گئی ہے۔ میں نے بانڈ کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ انکم ٹیکس محکمے نے یہ نوٹس سیاسی آقاؤں کے دباؤ میں بھیجا ہے۔ہزارے کے ایک دوسرے ساتھی ورکر پرشانت بھوشن نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ سرکار نے سبق نہیں لیا اور وہ گھناؤنے طریقے اپنانے پر اترآئی ہے۔ قابل ذکر ہے انکم ٹیکس محکمے سے کیجریوال کو بھیجے گئے نوٹس میں ان سے دو سال کی تنخواہ کی شکل میں 3.54 لاکھ روپے او ر اس پر سود کی شکل میں4.16 لاکھ روپے کمپیوٹر کے قرض کی بقایا رقم کی شکل میں 51 ہزار روپے اور اس پر سود کی شکل میں 1.04 لاکھ روپے کی ادائیگی کرنے کو کہا گیا ہے۔ اس طرح انہیں 9 لاکھ سے زائد روپے کی رقم دینے کو کہا گیا ہے۔
Anil Narendra,
Daily Pratap, Vir Arjun, Anna Hazare, Arvind Kejriwal, Kiran Bedi, Prashant
Bhushan, Lokpal Bill,
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں