15 ستمبر سے دہلی میں سٹی زن چارٹر نافذ ہونے والا ہے
دیش بھر میں کرپشن کے خلاف تحریک چلانے والے گاندھی وادی سماجی کارکن انا
ہزارے کی تحریک رنگ لانے لگی ہے۔ دہلی کی وزیر اعلی شیلا دیکشت کی حکومت
نے دہلی میں سٹی زن چارٹر کو15 ستمبر سے نافذ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ اس
طرح دہلی پہلی ریاست ہوگی جہاں یہ لاگو ہوگا۔ اگر یہ سٹی زن چارٹر صحیح طور
پر نافذ ہوتا ہے تو دہلی والوں کو روز مرہ کے درپیش مسائلمیں کمی ضرور آئے
گی۔چھوٹے چھوٹے کام پراہم کاموں میں جو کرپشن چلتا ہے اس پر لگام ضرور لگے
گی۔ دہلی والوں کو راشن کارڈ ،جیون مرن سرٹیفکیٹ، محکمہ محصول سے وابستہ
سرٹیفکیٹ طے وقت پر ملیں گے۔ متعلقہ محکموں کو طے شدہ وقت پر یہ کام کرنا
ہوگا۔ ایسا نہ کئے جانے پر افسروں پر جرمانہ ہوسکتا ہے۔وزیراعلی شیلا دیکشت
کا کہنا ہے 15 ستمبر سے اس قانون کو سختی سے لاگو کیا جارہا ہے۔ دہلی
حکومت نے 28 مارچ کو دہلی سٹی زن بل 2011ء (Right of Citizens to time-bound delivery of services Act 2011) وقت پر شہریوں کو خدمات کی فراہمی
کا قانون2011ء کا حق۔ اس بل سے وابستہ سارے قاعدے بنا دئے گئے ہیں ویسے تو
حکومت نے مختلف محکموں میں کئی سرٹیفکیٹ، لائسنس وغیرہ دینے کے لئے وقت اور
میعاد طے کررکھی ہے لیکن یہ قاعدہ حکومت کے علاوہ نئی دہلی میونسپل کونسل
،دہلی میونسپل کارپوریشن پر بھی نافذ العمل ہوگا۔ لیکن ان کا فائدہ لوگوں
کو اس لئے نہیں مل رہا تھا کیونکہ اس کام کو کرنے والے افسر کے خلاف کوئی
کارروائی کی تجویز نہیں تھی۔ نئے قانون بن جانے سے متعلقہ محکمے کے افسر کو
مقررہ میعاد میں کام کرنا ہوگا ورنہ اس پر جرمانہ ہوگا۔
نئے قانون کے مطابق اگر کسی شخص کو محکمہ محصول وغیرہ سے کوئی سرٹیفکیٹ لینا ہے تو وہ درخواست دے گا۔ اگر طے وقت کے اندر سرٹیفکیٹ نہیں ملا تو افسر سے شکایت کرے گا۔ شکایت صحیح پائے جانے پر اس محکمے کے سرٹیفکیٹ بنانے والے افسر پر جرمانہ لگایا جائے گا۔ جرمانے سے بچنے کے لئے افسر طے وقت میں سرٹیفکیٹ بنانے کی کوشش کرے گا۔ اگر سرٹیفکیٹ بنانے میں کوئی تکنیکی پہلو یا پیچ آتا ہے تو نوڈل افسر اس کی جانچ کرے گا لیکن سب کچھ صحیح پائے جانے کے بعد سرٹیفکیٹ نہیں بنا تو متعلقہ افسر کی عدم صلاحیت کے بارے میں اے سی آر (سالانہ خفیہ رپورٹ) میں بھی ا س کی کارکردگی درج کرا دی جائے گی جس سے اس کا پرموشن اور ترقی متاثر ہوگی۔ محکمے کا کہنا ہے کہ ہم سارا کام آن لائن سے بھی کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ شکایت بھی آن لائن کی جاسکے گی اور بعد میں سرٹیفکیٹ بھی آن لائن دیا جا سکے گا۔ ان خدمات میں اے پی ایل، بی پی ایل راشن کارڈوں کو بنوانا اور تصدیق اور ایس سی ، ایس ٹی اور او بی سی سرٹیفکیٹ بنانا، رہائشی سرٹیفکیٹ بنانا، لرننگ لائسنس بنانا، گاڑی رجسٹریشن، جیون مرن سرٹیفکیٹ بنانے کے علاوہ دیگر سبھی ضروری اہم خدمات شامل ہیں۔ اگر طے وقت میں کام نہیں ہوتا تو متعلقہ قصور وار ملازم پر 10 روپے سے200 روپے تک تک جرمانہ لگایا جاسکے گا۔ ہم سمجھتے ہیں ایسا سٹی زن چارٹر جہاں تک ہوسکے سبھی سروسز پر لگایا جانا چاہئے۔ لیکن شکایت اور اپیل کے سسٹم پر خاص طور پر غورکئے جانے کی ضرورت ہے کیونکہ معاملے کہیں بھی لٹک سکتے ہیں۔10 روپے کا جرمانہ بھی آج کے زمانے میں بہت کم ہے۔ بیشک انا ہزارے کی ایک مانگ پوری ہوگئی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد کیسا ہوتا ہے؟ قانون تو اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن اگر اس کو صحیح سے لاگو نہیں کیا گیا تو نتیجہ پھر وہی صفر ہوگا۔
نئے قانون کے مطابق اگر کسی شخص کو محکمہ محصول وغیرہ سے کوئی سرٹیفکیٹ لینا ہے تو وہ درخواست دے گا۔ اگر طے وقت کے اندر سرٹیفکیٹ نہیں ملا تو افسر سے شکایت کرے گا۔ شکایت صحیح پائے جانے پر اس محکمے کے سرٹیفکیٹ بنانے والے افسر پر جرمانہ لگایا جائے گا۔ جرمانے سے بچنے کے لئے افسر طے وقت میں سرٹیفکیٹ بنانے کی کوشش کرے گا۔ اگر سرٹیفکیٹ بنانے میں کوئی تکنیکی پہلو یا پیچ آتا ہے تو نوڈل افسر اس کی جانچ کرے گا لیکن سب کچھ صحیح پائے جانے کے بعد سرٹیفکیٹ نہیں بنا تو متعلقہ افسر کی عدم صلاحیت کے بارے میں اے سی آر (سالانہ خفیہ رپورٹ) میں بھی ا س کی کارکردگی درج کرا دی جائے گی جس سے اس کا پرموشن اور ترقی متاثر ہوگی۔ محکمے کا کہنا ہے کہ ہم سارا کام آن لائن سے بھی کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ شکایت بھی آن لائن کی جاسکے گی اور بعد میں سرٹیفکیٹ بھی آن لائن دیا جا سکے گا۔ ان خدمات میں اے پی ایل، بی پی ایل راشن کارڈوں کو بنوانا اور تصدیق اور ایس سی ، ایس ٹی اور او بی سی سرٹیفکیٹ بنانا، رہائشی سرٹیفکیٹ بنانا، لرننگ لائسنس بنانا، گاڑی رجسٹریشن، جیون مرن سرٹیفکیٹ بنانے کے علاوہ دیگر سبھی ضروری اہم خدمات شامل ہیں۔ اگر طے وقت میں کام نہیں ہوتا تو متعلقہ قصور وار ملازم پر 10 روپے سے200 روپے تک تک جرمانہ لگایا جاسکے گا۔ ہم سمجھتے ہیں ایسا سٹی زن چارٹر جہاں تک ہوسکے سبھی سروسز پر لگایا جانا چاہئے۔ لیکن شکایت اور اپیل کے سسٹم پر خاص طور پر غورکئے جانے کی ضرورت ہے کیونکہ معاملے کہیں بھی لٹک سکتے ہیں۔10 روپے کا جرمانہ بھی آج کے زمانے میں بہت کم ہے۔ بیشک انا ہزارے کی ایک مانگ پوری ہوگئی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد کیسا ہوتا ہے؟ قانون تو اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن اگر اس کو صحیح سے لاگو نہیں کیا گیا تو نتیجہ پھر وہی صفر ہوگا۔
Anil Narendra, Anna Hazare, Citizen Charter, Corruption, Daily Pratap, Delhi Government, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں