انا ہزارے کی تحریک اور میڈیا کا کردار



Published On 30th August 2011
انل نریندر
سنیچر کے روز لوکپال بل پر ٹیم انا کی تین شرطوں پر پارلیمنٹ میں ہوئی بحث میں میڈیا کے کردار پر بھی تبصرہ کیا گیا ہے۔اس کے کردار کو لیکر اکثر ناراضگی جتانے والے جنتادل متحدہ کے شرد یادو اور آر جے ڈی کے سربراہ لالو پرساد یادوسنیچر کو بھی اپنی بات کہنے سے نہیں چوکے۔ ان دونوں نے ایک آواز سے ایک دوسرے کے سُر میں سُر ملاتے ہوئے کہا کہ انا کی پوری تحریک میڈیا کی دین ہے۔ زمین سے جڑے جدوجہد کرنے والے سماجوادی نیتا شرد یادو نے انا کے تین مطالبات پر لوک سبھا میں ہوئی بحث کے دوران نہ صرف اتفاق رائے ظاہر کیا بلکہ انہوں نے کہا کہ انا ہزارے ایماندارانہ تحریک چلانے والے ایک سرکردہ شخصیت ہیں۔ میں ان کی عزت کرتا ہوں لیکن ان سے شکایت بھی ہے ۔ انہوں نے ان 12 دنوں میں کبھی بھی مہاتما پھولے کو یادنہیں کیا۔ شرد یادو کا کہنا تھا کہ انا کو ان کے آس پاس کے لوگ اور میڈیا گمراہ کررہا ہے۔ ان کی اس مہم کو اپنی ٹی آر پی بڑھانے کے لئے الیکٹرانک میڈیا ہوا دے رہا ہے۔ یہ حالت ہوگئی ہے کہ ڈبہ(ٹی وی) رات بھر بجتا رہتا ہے۔ پورے دیش میں کہیں باڑھ سیلاب تو کہیں غریبی سے تباہی مچی ہوئی ہے لیکن اس ڈبے کو فرصت نہیں۔ انہوں نے سرکار سے کہا اسے آپ فرصت دلائیے۔ آپ انا کی باتوں کو مان کر اپنی رضامندی ڈبے والوں بھیج دیں تاکہ یہ بند ہوسکیں۔ انہوں نے کہا کہ رام لیلا میدان میں رات میں جو بھی بھیڑ دکھائی جاتی ہے اس میں زیادہ تر وہاں گھومنے اور پکنک منانے کے لئے جارہے ہیں۔ پہلے لوگ بوٹ کلب جایا کرتے تھے اب رام لیلا میدان جارہے ہیں اور میڈیا انہیں بار بار دکھا کر اپنی ٹی آر پی ریٹنگ بڑھا رہا ہے۔ شرد یادو نے کہا کہ چار مہینے سے ڈبہ بج رہا ہے۔اس ڈبے سے بہت دقتیں ہیں۔ یہ چینل انا سے اتنے زیادہ متاثر ہیں کہ انہیں دیش میں آئے سیلاب تک کی خبر دکھانے کی ضرورت نہیں محسوس ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ پچھلے دس سال سے کسی چینل پر نہیں گئے۔ انہوں نے وہاں بیٹھے جتن پرساد اور سچن پائلٹ سے پوچھا کہ تم لوگ تو عقلمند ہو کیوں ان کے بلاوے پر چلے جاتے ہو؟ انہوں نے ایک چینل خاص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک ڈبے میں بنگالی بابو مشائے تو بات ہوئے اتنے جارحانہ ہوجاتے ہیں کہ لگتا ہے منہ ہی نوچ لیں گے اور دوسروں سے بھی نیتاؤں کا منہ نچواتے ہیں۔ اب تو انا کی باتیں مان کر ان چینلوں سے ہمیں نجات دلواؤ۔ اس پر ممبران نے میزیں تھپتھپا کر ان کا حوصلہ بڑھایا۔
ہم شرد یادو صاحب کا بہت احترام کرتے ہیں لیکن ان کی دلیلوں سے متفق نہیں ہیں۔ میڈیا وہی کرے گا جو جنتا چاہے گی اور اسی کے چلتے میڈیا اپنے فیصلے کرنے کا حقدار ہے اور یہ بات پچھلے 15 روز میں ثابت ہوچکی ہے۔اس دوران ٹی وی دیکھنے والوں کی ریٹنگ بڑھی ہے۔ انا کی تحریک نے ساس بہو یا کھیل کے چینلوں پر یا دیگر سیریلوں کے چینلوں کی مقبولیت کا گراف گرادیا ہے۔ لوگ نیوز چینلوں کے سامنے چپکے رہے۔ کھیل چینل 33 فیصد اور ہندی سنیما کے چینلوں کے4 فیصدی ناظرین گھٹے ہیں۔ اس کے برعکس ہندی نیوز چینلوں کے ناظرین میں6 فیصدی اضافہ ہوا ہے۔ ہندی کے اسٹارنیوز نے تین کروڑ ناظرین کا اعدادو شمار پار کرلیا ہے تو انگریزی میں ٹائمس ناؤ زبردست ہٹ ہوا ہے۔ ایسا سب کچھ اس لئے کیونکہ جنتا بیدار ہے، سمجھدار ہے اور اسے میڈیا میں اپنی بات کے تئیں آواز چاہئے۔ جنتا کا غصہ مجبور کررہا ہے کہ چینل اور اخبار اس کی سوچ پر بے دھڑک اور بے خوف بات کیا کریں۔ میں خود پچھلے 15 روز سے صرف انا کی تحریک کے بارے میں اپنے پہلوؤں پر ہی اپنے خیالات دے رہا ہوں اور کسی موضوع پر لکھنے کا دل ہی نہیں چاہا۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر دیش میں جمہوریت مضبوط ہورہی ہے ، اگر دیش میں لوگوں کو اظہار آزادی کا بھرپور موقعہ مل رہا ہے تو بھلا میڈیا اپنے مضبوط کردار کو کیوں نہیں نبھائے گا۔ جو لوگ میڈیا پر انگلی اٹھا رہے ہیں وہ کہہ رہے ہیں انا کی تحریک تو بنیادی طور پر میڈیا کی تحریک ہی ہے۔ ایسے دانشوروں سے پوچھا جانا چاہئے کہ اگر دیش میں سماجی تبدیلی لانے والی کسی تحریک میں میڈیا مثبت رول نبھا رہا ہے تو کیا وہ جمہوریت اور دیش واسیوں کے لئے خراب ہے؟ کیا اس سے جمہوریت مضبوط ہوتی ہے یا اس کی جڑیں کھوکھلی ہورہی ہیں؟ کسی دیش میں جمہوریت کی کامیابی کی کسوٹی یہ ہی ہوتی ہے کیا؟۔ یہ سمت میڈیا بھی ریفلٹ کررہا ہے۔اگر جمہوریت کے تئیں میڈیا کا رویہ مثبت اور سرگرم کردار والا نہیں ہے تو ایسے میں جمہوریت مضبوط نہیں ہوسکتی۔ جہاں بھی میڈیا کی سرگرمی ہے وہاں جمہوریت زندہ ہے ۔ آخر تمام طاقتور سازشوں کے باوجود امریکہ جیسے ملک میں بار بار یہ میڈیا تو ہے جو اجاگر کرتا ہے کہ کس طرح صدر نکسن نے واٹر گیٹ اسکینڈل کروایا تھا۔ کس طرح امریکہ کی آتنک واد کے خلاف لڑائی میں امریکی فوجی مارے جارہے ہیں۔ یہ میڈیا ہی ہے جس نے گوانتاناموبے جیل میں عراق کے لوگوں سے کچھ امریکی فوجیوں نے غیر انسانی سلوک کیا۔ یہ میڈیا ہی ہے جو انگلینڈ میں میڈیا مغل روپرڈ مارڈوک کو بیک فٹ پر جانے کیلئے ہی نہیں بلکہ شارے عام طور سے معافی مانگنے اور میڈیا کے ایک قدیم اور مقبول اخبار کو بند کرادیا۔ یہ میڈیا ہی ہے جس نے پاکستانی فوج کے کچھ افسروں کی سانٹھ گانٹھ کا پردہ فاش کیا اور اس کی بھاری قیمت بھی وہاں کے صحافیوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔اس لئے یہ سوچنا یا کہنا کہ میڈیا کے طور طریقے صحیح نہیں ہیں غلط ہیں۔ اگر میڈیا سرگرم نہیں ہوگا ،اگر میڈیا بڑھ کر اپنا کردار نہیں نبھائے گا تو جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی۔ حکومتیں کارپوریٹ دنیا کیا میڈیا کا اپنے مفادات اور اغراز کو آگے بڑھانے کے لئے استعمال نہیں کرتا؟سب سے تعجب کی بات تو کھل کر ان سوشل نیٹورکنگ سائٹوں میں دیکھنے کو ملی جہاں لوگ بہت ہوشیاری سے یہ رائے زنی کررہے تھے کہ میڈیا تو اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا نظریہ ہی ہوتا ہے اور یہ بھی کے میڈیا کے پاس کوئی مسئلہ نہیں اس لئے وہ انا ہزارے کی تحریک کو ہوادے رہا ہے ۔دنیا میں جتنی بھی تبدیلی یا بڑی تحریکیں چلی ہیں وہ تحریک عام طور پر کامیاب تبھی ہوئی جب ان میں میڈیا بڑھ چڑھ کر اور سرگرم کردار نبھانے کیلئے کھل کر سامنے آیا ہے۔ یہاں تک کہ شکل میں بالشوک انقلاب کو بھی میڈیا زبردست حمایت دے رہا تھا اور امریکہ میں مارٹن لوتھر کنگ کے ذریعے چلائی گئی سیاہ فام تحریک کو بھی میڈیا نے زبردست حمایت دی تھی۔ تبھی امریکی گورے اس سطح پر جھکنے کو تیار ہوئے تھے کہ وہ سیاہ فاموں کو بھی یکساں طور پر دو قدم اپنے ساتھ مل کر چلنے پر مجبور ہوئے۔ حالیہ دہائیوں میں جنوبی افریقہ کی نسل پرستی تحریک کو بھی اگر پوری دنیا میں مقام ملا اور جنوبی افریقہ کی گوری سرکار نسل پرستی کے مسئلے پر جھکنے کو تیار ہوئی تو اس کی بڑی وجہ صرف اور صرف یہ ہی تھی کہ میڈیا نیلسن منڈیلا کی نسل پرستی کے خلاف تحریک کے ساتھ تھا۔ اگر میڈیا کی حمایت منڈیلا کو نہیں ملتی تو وہ جیل کی کوٹھری میں ہی سڑ رہے ہوتے۔ وہاں سے نکل کر غرور میں ڈوبے افریقہ کے ستارے مدھم نہ ہوتے۔ کیا میڈیا کے بغیر کسی سماج کا کم سے کم آج کی تاریخ میں تصور کرسکتے ہیں؟ اگر میڈیا شاندار واچ ڈاگ کا کردار نہیں نبھائے گا تو سرکارکیا نبھائے گی؟ کیا یہ ممبران پارلیمنٹ نبھائیں گے؟ سرکاریں اور سیاستداں کبھی بھی آزاد میڈیا کو برداشت نہیں کرتے۔ اکثر دیکھا جاتا ہے جب میڈیا کسی حکومت کی تعریف کرتا ہے تو وہ اچھا ہوجاتا ہے اور اگر وہ سرکار کی خامیوں کو اجاگر کرے تو وہ ولن بن جاتا ہے۔ یہ بدقسمتی ہی ہے کہ انا کی تحریک کو ہوا دینے کا الزام میڈیا پر لگایا جارہا ہے۔ میڈیا اپنا کام کررہا ہے جو دیش کے مفاد میں ہے۔ جن ملکوں میں جن وادی سیاسی پھیلاؤ اور سول سوسائٹی کو میڈیا کی حمایت نہیں ملتی وہاں جمہوریت کبھی پھول پھل نہیں سکتی۔
Anil Narendra, Anna Hazare, Daily Pratap, Lokpal Bill, Parliament, Role of Media, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!