جنتا کی انا کے تئیں وفاداری اور حمایت میں کوئی کمی نہیں آئی


Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily 
Published On 28th August 2011
انل نریندر
یوپی اے سرکار کو یہ سمجھنا چاہئے کہ انا کو مل رہی وسیع عوامی حمایت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سرکار کو اتنا اختیار نہیں ہونا چاہئے کہ کروڑوں نوجوانوں کے جذبات کی قدر نہ کرے۔ ایسا کرنا بھاری بھول ہوگی۔ جنتا کے انا کے تئیں جوش میں کوئی کمی نہیں آئی۔ کچھ حمایتی تو 16 اگست سے ہی رام لیلا میدان میں ڈیرا ڈالے ہوئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہم یہاں تب تک ڈٹے رہیں گے جب تک انا انشن ختم نہیں کرتے۔’آ‘سے امرود اور انار پڑھنے والے بڑیاں بازار میں واقع نیتا جی سبھاش چندر بوس جونیئر ہائی سکول کے بچے پچھلے ہفتے سے ’آ‘ سے انا پڑ رہے ہیں۔ان کی اس لگن پر انا کا مطلب کیا ہے ، کا جواب ٹیچر دے رہے ہیں۔بدعنوانی سے لڑنے والا عدم تشدد کا جانباز ہندوستانی بری فوج کے چیف جنرل وی کے سنگھ جیسی شخصیت کا یہ کہنا کہ ہم ایک دلچسپ اور عدم تشدد کے دور سے گذر رہے ہیں اور اس لئے ہم جمہوریت اورجنتا کی طاقت کو گواہ بنا رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ جنتا اپنے ڈھنگ سے اپنی پریشانی بیان کررہی ہے۔ پیپلی لائیو کے مشہور آرٹسٹ رگھوویر یادو نے مہنگائی ڈائن کی دھن چھیڑ کر لوگوں کی تالیاں بٹوریں۔جیسے ہی مہنگائی ڈائن کا راگ چھیڑا تو تالیوں کی برسات شروع ہوگئی۔ مہنگائی اور کرپشن کے ناسور کے چلتے لوگوں کا جینا مشکل ہوگیا ہے۔ اب تک ایک طبقہ ایسا تھا جس نے انا کی تحریک کے خاص نکتے بدعنوانی پر ایک لفظ نہیں کہا تھا۔ صنعتی طبقہ بھی اس پر خوش ہے۔ ٹاٹا گروپ کے چیئر مین رتن ٹاٹا نے مانا کرپشن کے معاملے میں دیش کی حالت اور خراب ہوئی ہے۔ اگر آپ کرپشن میں شریک نہیں ہوتے تو آپ کا کاروبار پچھڑ جاتا ہے۔ سال1991 کی بہ نسبت ملک میں کرپشن بڑھا ہے۔ میں تیس ہزاری میں سول جج کے عہدے پر کام کرتا ہوں۔ یہ کہنا تھا تیس ہزاری عدالت میں سول جج اجے پانڈے کا ، جنہوں نے اپنی نوکری داؤ پر لگا کر رام لیلا میدان پہنچ کر جنتا اور سرکار کو حیرت زدہ کردیا۔ جج صاحب نے بتایا کہ جوڈیشری میں کس طرح کرپشن حاوی ہورہا ہے۔ بیچارے جج کے اس واقعہ کی رپورٹ ہائی کورٹ نے مانگی ہے اور ممکن ہے کہ ان پر قانونی کارروائی ہو۔
انا کی تحریک کئی معنوں میں تاریخی مانی جارہی ہے۔ جیسا عوامی سیلاب اس تحریک کو ملا ہے اس سے پہلے کبھی کسی بھی تحریک کو نہیں ملا تھا۔ گذشتہ ایتوار کو رام لیلا میدان میں انا کی رسوئی سے تقریباً ایک لاکھ لوگوں نے کھانا کھایا۔ جو رسوئی صرف 20 والٹنیئروں کے ساتھ شروع ہوئی تھی اب وہ ایک لاکھ لوگوں کو کھانا کھلا رہی ہے۔ ناشتے میں چائے ، پوری اور سبزی ملتی ہے۔ لنچ اور ڈنر پر چھولے چاول،راجما چاول،دال چاول دئے جاتے ہیں اور یہ سب رام لیلا میدان میں آرہے حمایتیوں کے چندے سے ہورہا ہے۔ کوئی تو گھی کے ٹین دے رہا ہے، کوئی چاول اور کوئی آٹے کی بوریاں ، کوئی آلو کے ٹرک ۔ زیادہ تر نقد چندہ اپنی مرضی سے دے رہے ہیں۔ بدعنوانی سے دوچار انا کی تحریک کی دل سے حمایت کررہے لوگ صرف رام لیلا میدان پہنچ کر نہ صرف انا کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں بلکہ ان کی تن من دھن سے سیوا میں لگے ہیں۔کوئی گھر سے کھانا لارہا ہے تو کوئی زبردستی ٹیم انا کو چندہ و عطیہ نقدی میں دے رہا ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ٹیم انا رام لیلا میدان میں ابھی چندہ نہ دینے کا اعلان کررہی ہے لیکن حمایتی زبردستی میدان کے کاؤنٹروں پر پیسہ دینے کو بے چین ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ انا کی طرح انشن تو نہیں کرسکتے لیکن کم سے کم اپنی محنت کی کمائی کا کچھ حصہ انا کی تحریک میں لگا کر اپنے آپ کو کرپشن سے لڑنے والا سپاہی بنانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ صرف چندے کے پیسوں سے ٹیم انا کے پاس 50 لاکھ روپے سے زیادہ اکٹھا ہوچکا ہے۔ جہاں ایک طرف تو جنتا کا یہ جذبہ دیکھنے کو ملتا ہے وہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کی حرکتوں نے سارے دیش کو شرمسار کردیا ہے۔ پولیس کی نرمی کا نا جائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ رام لیلا میدان میں انا کے حمایتیوں کی بھیڑ میں کچھ آوارہ لوگ لڑکیوں کو چھیڑنے اور فقرے کسنے اور یہاں تک کہ ان کو چھونے کا کوئی موقعہ نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ شراب پی کر ’میں انا ہوں‘ ٹوپی پہن کر پولیس کی پٹائی کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ ممکن ہے یہ چال ہے تحریک کے ماحول کو خراب کرنے کی لیکن جنتا پر ان سب باتوں کا کوئی اثر نہیں ہورہا ہے اور انا کی عوامی حمایت مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟