انا کی تحریک! سنسد میں نوجوان برگیڈچھائی رہی




Published On 31st August 2011
انل نریندر
سنیچر کو لوک سبھا میں جب انا کی تین شرطوں پر بحث چل رہی تھی تو ایک بات خاص طور پر سامنے آئی۔ وہ یہ تھی کہ دونوں کانگریس اور بھاجپا نے اپنی نوجوان پیڑھی کو آگے کرکے انہیں بولنے کا اور اپنی بات رکھنے کا موقعہ دیا۔ وہ اتنی اہم بحث میں اپنا ہنر دکھا سکیں۔ کانگریس کے نوجوان ممبر پارلیمنٹ سندیپ دیکشت اپنی والدہ محترمہ شیلا دیکشت کی چھایا سے بھی باہر نکل آئے۔ انہوں نے اپنے دم خم پر آگے بڑھنے کا جو فیصلہ کیا وہ لائق تحسین ہے۔ سندیپ دیکشت نے نہ صرف اپنی پارٹی میں اپنا قد بڑھایا ہے بلکہ اپوزیشن نے بھی کئی بار ان کی دلیلوں سے اتفاق ظاہر کیا۔ جب انا کو گرفتار کیا گیا تھا تو سندیپ پہلے ممبر پارلیمنٹ تھے جنہوں نے کھلے طور پر کہا تھا یہ غلط ہوا ہے۔ پہلے دن سے ہی وہ صلاح صفائی میں لگ گئے تھے۔ جب ایتوار کو ولاس راؤ دیشمکھ وزیر اعظم کا خط لیکر رام لیلا میدان پہنچے تو ان کے ساتھ پارٹی اور حکومت نے سندیپ دیکشت کو بھیج کر یہ واضح کردیا کہ اب ان پر کتنا بھروسہ ہے۔ سندیپ دیکشت کے تئیں سب کی نظروں میں عزت بڑھی ہے اور یہ ان کے آگے کام آئے گی۔ ادھر ورون گاندھی کو اتارنے کے پیچھے بھاجپا کا خاص مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ ان کا گاندھی انا ہزارے کی تحریک اور عوامی جذبے کے زیادہ قریب ہے۔ اس سے پہلے ورون گاندھی نے ٹیم انا کے عوامی لوکپال کو بطور پرائیویٹ ممبر بل لوک سبھا میں لانے کی کوشش کی تھی۔ وہ رام لیلا میدان بھی گئے تھے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ورون گاندھی نے سشما سوراج کے ساتھ پارٹی کے دوسرے مقرر کے طور پر بحث کی دفعہ کے برعکس بیان دے ڈالا۔ جہاں سبھی مقررین نے بار بار پارلیمنٹ کی سرداری اور پارلیمانی جمہوریت کی اپیل دوہرائی وہیں ورون گاندھی نے ٹیم انا کے نمائندوں کی زبان بولتے ہوئے کہا کہ بیشک قانون پارلیمنٹ میں بنتے ہیں اور ممبران پارلیمنٹ کا مخصوص اختیار ہے مگر عوام بالاتر ہے۔ اس سے پہلے ایوان میں بحث کا آغاز کرتے ہوئے اپوزیشن کی لیڈرمحترمہ سشما سوراج نے جمعہ کے روز راہل گاندھی کی تقریر پر سخت اعتراض کیا۔ ان کا الزام تھا کہ راہل گاندھی نے جو کہا اس سے انا ہزارے کا انشن ختم کرنے کیلئے پارلیمنٹ کی اپیل کے لئے کئے کرائے پر پانی پھر گیا ہے۔ کانگریس کے دوسرے مقررین تھے نوجوان وزیر جوترادتیہ سندیہ۔
انہوں نے سول سوسائٹی کو اہمیت دینے کیلئے سونیا گاندھی کو سہرہ دیا ہے۔ اور ان کوششوں میں بھاجپا کے کردارپر بھی سوال اٹھایا۔ راشٹریہ لوک دل کی جانب سے متھرا کے ممبر پارلیمنٹ جینت چودھری نے اپنی بات رکھی۔ انہوں نے ٹیم انا کے تمام مطالبات کی حمایت کی ہے۔ اس سے کئی دیگر پارٹیوں کے نوجوان ممبران پارلیمنٹ میں بھی جوش پیدا ہوگیا۔ انہوں نے بھی اسپیکر صاحبہ سے موقعہ دینے کیلئے پرزور درخواست کی تھی۔ ان میں سپا کے نیرج شیکھر و دھرمیندر یادو اور بسپا کے دھننجے سنگھ قابل ذکر ہیں۔ پروین سنگھ سرن نے اناکا جن لوکپال بل پارلیمنٹ کی اسٹیڈنگ کمیٹی کے سامنے پیش کیا۔ پریہ دت، سنجے نروپم، ملند دیوڑا، سچن پائلٹ وغیرہ نوجوان ممبران نے انا کی حمایت کی اور حکومت اور پارٹی پر دباؤ بنایا۔ کل ملاکر انا کی تحریک پر پارلیمنٹ میں ہوئی بحث میں نوجوان برگیڈ ہی چھائی رہی۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!