کھیل تنظیموں پر لگام والے بل کا یہی حشر ہونا تھا


Published On 2nd September 2011
انل نریندر
جب بات سیاستدانوں پر لگام کسنے کی ہو تو بھلا بات کیسے بن سکتی ہے؟ جی ہاں منگل کے روز وزیر اعظم کی موجودگی میں ہوئی کیبنٹ کی میٹنگ میں قومی کھیل ڈیولپمنٹ بل کا جو حال ہوا اس سے تو یہ ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اپنی سرگرمیوں پر یہ کھیل مٹھادھیش کسی بھی طرح کی روک لگانے کی مخالفت جم کر کرتے ہیں۔ انہیں اس بات کی بھی پرواہ نہیں کہ کیبنٹ میٹنگ کا چیئرمین کون ہے۔ غالباً یہ پہلی بار ہوا ہوگا جب وزیر اعظم منموہن سنگھ کو اپنی ہی کیبنٹ میں ایک سیاسی چیلنج ملا ہو۔ وزیر کھیل اجے ماکن نے ماہ فروری میں اعلان کیا تھا کہ بھارتیہ کرکٹ کنٹرول بورڈ (بی سی سی آئی) سمیت تمام کھیل فیڈریشنوں کو ایک نئے ضابطے کے تحت لانے کیلئے وزیر ایک بل لائے گی۔ منگل کے روز کیبنٹ میں اجے ماکن نے یہ بل رکھا تھا۔ اس میں یہ تجویز بھی تھی کہ بی سی سی آئی بھی آر ٹی آئی قانون کے دائرے میں آئے تاکہ اس میں زیادہ شفافیت دکھائی پڑے۔ وزارت نے کھیل فیڈریشنوں کے وابستہ عہدیداران کے لئے زیادہ تر عمر اور میعار کے کنٹرول کے بھی قواعدرکھے۔ دیش کی کھیل کی حالت اور سمت طے کرنے کیلئے تنظیموں کی لگام کسنے کے مقصد سے لائے گئے اس بل کی یہ بری حالت طے ہی تھی کیونکہ کھیل تنظیموں کو بے لگام دوڑارہے کئی سیاسی دھرندروں کو یہ اپنا کھیل بگاڑنے کا اوزار نظر آرہا تھا۔ ظاہر ہے کہ ایسے میں کیبنٹ کی میٹنگ میں اس بل کے مستقبل طے کررہے سیاسی کھلاڑیو ں کے ہاتھ سے اسے ہری جھنڈی کیسے مل جاتی۔ بل کو لیکر سب سے زیادہ ناراض وزیر زراعت شرد پوار تھے۔ وہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے چیئرمین ہیں۔ وہ اس تجویز سے خاصے خفا تھے کہ کھیل فیڈریشنوں کو عہدیداران کے لئے70 سال سے زائد عمر طے کردی گئی ہے۔ بزرگ ہوگئے پوار نے عمر کی حد کی اس تجویز پر وزیر کھیل کے طریقے پر سوال اٹھائے۔ ذرائع کے مطابق اس معاملے میں انہوں نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ اگر 70 سال کی عمر کے بعد مانا جاتا ہے کہ کوئی کام ٹھیک سے نہیں ہوسکتا تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کمرے میں 70 سال کی عمر پار کر گئے کسی شخص کو نہیں ہونا چاہئے تھا۔ لیکن انہوں نے تنقید کی کہ وہ تو70 پارکرچکے ہیں۔ وزیر مالیات پرنب مکھرجی نے وزیر اعظم کی جانب دیکھتے ہوئے یہ تبصرہ کیا تھا۔فاروق عبداللہ بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ کیبنٹ میں اس بل کو لیکر شرد پوار ، پرفل پٹیل، کملناتھ اور ولاس راؤ دیشمکھ نے بھی اپنا احتجاج ظاہر کیا اس لئے وزیر اعظم کو وزیر کھیل سے یہ کہنا پڑا کہ اس بل کا ڈرافٹ دوبارہ لائیں اور اس میں سے وہ تجویز ہٹا دیں جن کولیکر ساتھی وزیر ناراض ہیں۔ وزیر کھیل اجے ماکن نے شفافیت کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔ وزیر اعظم ، وزیر داخلہ پی چدمبرم نے بل کی حمایت کی لیکن پوار،کملناتھ، سی پی جوشی ،ولاس راؤ دیشمکھ ، پرفل پٹیل جیسے کئی نیتاؤں کے احتجاج نے راستہ روک دیا۔ خیال رہے سی پی جوشی راجستھان کرکٹ بورڈ کے ولاس راؤ دیشمکھ ممبئی کرکٹ بورڈ کے جبکہ پٹیل بھارتیہ فٹ بال فیڈریشن میں بطور چیئرمین قابض ہیں۔ اس سے پہلے وزیر پارلیمانی امور و بی سی سی آئی کے ڈپٹی چیئرمین راجیو شکلا نے بھی اس پر اعتراض ظاہر کیا۔ اپوزیشن کے انوراگ ٹھاکر و وجے کمار ملہوترہ بھی احتجاج میں شامل تھے۔ اس واقعے کے سلسلے میں کئی سوال کھڑے ہوگئے ہیں جو بل وزیر اعظم، وزیر مالیات ، وزیر خزانہ کی خاص پہل پر لایا گیا ہو اس پر کیبنٹ کے پانچ وزیروں نے بلڈوزر چلا دیا ہو، یہ معمولی بات نہیں مانی جاسکتی۔ اس سے وزیر اعظم کی اپنی کیبنٹ پر پکڑ کے سوال بھی کھڑے ہوتے ہیں۔ کیونکہ کیبنٹ میں شرد پوار کا یہ کہنا کہ اس کمرے میں بھی تو70 سال کے بزرگ بیٹھے ہیں ، سیدھے طور پر وزیر اعظم کو چیلنج تھا۔ پوار یہاں تک نہیں رکے انہوں نے یہ بھی دھمکی دے دی کہ اگر کیبنٹ میںیہ پرستاؤ منظور ہوگیا تو وہ اس معاملے کی شکایت یوپی اے چیئرپرسن سونیا گاندھی کے پاس لے جائیں گے۔ پوار کے تیور دیکھ کر پرنب مکرجی بھی حیرت زدہ رہ گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مجوزہ بل کے خلاف بھاجپا کے ارون جیٹلی، وجے کمار ملہوترہ، یشونت سنہا، انوراگ ٹھاکر جیسے سرکردہ نیتا بھی ہیں کیونکہ یہ لوگ بھی کئی کھیل تنظیموں میں دہائیوں سے گھس پیٹھ بنائے بیٹھے ہیں۔ وزیراعظم کے لئے اتنا ہی غنیمت رہا کہ اپوزیشن اس معاملے میں حکومت کو گھیرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ جو گنے چنے نیتا اس کی حمایت کررہے تھے ان میں لالو پرساد یادو، کیرتی آزاد۔ کھیل ڈولپمنٹ بل کی کئی شقیں ایسی ہیں جو برسوں سے کھیل تنظیم کی کرسی سنبھال کر ملائی کھا رہے سیاسی دھرندروں کا پتا صاف کرسکتی ہیں۔ مجوزہ بل نے کھیل کی دنیا میں ہلچل مچا دی ہے۔ خاص کر کرکٹ کی دنیا میں۔ سنیل گواسکر جیسے سرکردہ کرکٹر نے کہا کہ اگر بی سی سی آئی کو کچھ چھپانا نہیں ہے تو وہ آر ٹی آئی کے دائرے میں آنے سے اتنا کیوں گھبراتی ہے۔ کپل دیو کا کہنا ہے جب بی سی سی آئی سرکار سے کوئی گرانٹ نہیں لیتی تو اسے آر ٹی آئی میں کیسے لیا جاسکتا ہے؟ دراصل مجوزہ بل میں سی بی سی آئی کو آر ٹی آئی کے دائرے میں لانے کی بات کہی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں کرکٹرز کو بھی اینٹی ڈوپنگ ایجنسی کے تحت لانے کی سہولت ہے۔ بی سی سی آئی کا کہنا ہے کہ اس بل کے ذریعے حکومت اسے اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش کررہی ہے جبکہ حکومت کی دلیل ہے کہ وہ اسے جوابدہی اور شفاف بنانا چاہتی ہے۔ غور طلب ہے کہ بی سی سی آئی اپنے آپ میں ایک مختار ادارہ ہے جو اپنا فنڈ خود ہی اکٹھا کرتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سرکار سے وہ ٹیکس میں چھوٹ یا دیگر دوسری سہولتیں لیتی رہتی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے اس تنظیم پر کئی طرح کے الزام لگ رہے ہیں۔ خاص طور پر آئی پی ایل انعقاد میں وہ سوالوں کے گھیرے میں رہی ہے۔ اس لئے کئی لوگ مانگ کرنے لگے ہیں کہ کرکٹ جیسے سب سے مقبول کھیل کو چلانے والی اس تنظیم کے کام کاج میں شفافیت لائی جائے تاکہ پورا دیش اس پر نظر رکھ سکے۔ ہندوستان کا کرکٹ محض ایک کھیل نہیں ، یہ دیش کی سوشل لائف کے ساتھ دیش کی معیشت کو بھی اچھی طرح سے متاثر کرتا ہے۔ اس لئے اس سیکٹر کو بغیر کسی ریگولیشن کے چھوڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ اگر نیشنل اسپورٹس ڈیولپمنٹ بل پاس ہوا تو بی سی سی آئی کا درجہ بھی دیش کی دیگر کھیل فیڈریشنوں کے برابر ہوجائے گا اور اسکا کنٹرول بھی انہیں کی طرح ہوگا۔ لیکن کرکٹروں کے ایک طبقے کی دلیل ہے کہ بی سی سی آئی کو اور فیڈریشنوں کی طرح بنانا ہوگا۔یہ سمجھداری والا قدم نہیں ہوگا۔ فیڈریشنوں میں بیشک کچھ خامیاں ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ انہوں نے کھیلوں کو کہاں تک پہنچایا ہے۔ آج کھیل کی دنیا میں بھارت کا نام ہے یہ کچھ حد تک اس لئے بھی ممکن ہوا کیونکہ بی سی سی آئی نے بغیر کسی مداخلت کے اپنے طریقے سے کام کرکے انعام دیکر بھارتیہ کرکٹ کو دنیا کی اول ٹیموں میں سے ایک بنایا ہے۔ اسی طرح اور کھیل بھی ہیں جن کی کارکردگی پچھلے ایشیائی کھیلوں میں دیکھنے کو ملی ،مگر اس پر کنٹرول لگانے کی کوشش کی تو ہو سکتا ہے اس کا بھی منفی اثر کھیلوں پر پڑے۔ دراصل دونوں فریق اپنے اپنے مضبوط دلائل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس لئے ہڑبڑی میں کچھ کرنا خطرنا ک ہوسکتا ہے۔ اگر بی سی سی آئی جیسے ادارے کو آر ٹی آئی کے دائرے میں لانا ہے تو پہلے اس قانون میں ترمیم کی ضرورت پڑے گی۔ اس مسئلے پر مزید بحث درکار ہے۔ سبھی فریقین کی رائے جان کر ہی کوئی فیصلہ لینا بہتر ہوگا۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟