انا کیلئے عوامی ہجوم کیوں اترا یہ سمجھناچاہئے





Published On 31st August 2011
انل نریندر
انا ہزارے کی تحریک سے کئی سبق ملتے ہیں۔ یہ ایک عجب تحریک تھی جس نے سارے دیش کو ایک بار ہلا کر رکھ دیا۔ سارے طبقوں ،مذاہب، فرقوں سبھی کو ملادیا۔ برسوں کے بعد مڈل کلاس کے لوگ سڑکوں پر اترے۔ اپنی گاڑیوں سے اترپر رام لیلا میدان میں صفائی کررہے ، کھانا کھلا رہے ، ان لوگوں نے شاید اس سے پہلے کبھی بھی یہ سب نہیں کیا ہوگا۔ وہ مڈل کلاس جو ووٹ نہیں دیتا وہ12 دن تک رام لیلا میدان میں انا کے ساتھ کھڑا دکھائی دیا۔ اس تحریک میں دیش کا ہر طبقہ شامل تھا۔ بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ موم بتی مارچ کرنے والے لوگ وہ ہیں جوکبھی ووٹ ڈالنے بھی نہیں جاتے۔ مگر یہ سب کہنے والے بھول جاتے ہیں کہ دیش کا یہ ہی طبقہ انتخابات میں آپ کو نظرانداز محسوس ہوتا ہے۔ جس طرح چناؤ ذات پات اور علاقائیت جیسے مسئلوں پر جیتے جاتے ہیں وہاں دیش کا یہ شہری طبقہ اپنے آپ کو اقلیت میں محسوس کرتا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کی تعداد مٹھی بھر ہے اور وہ چناؤ میں اپنا کوئی کردار ہی نہیں مانتے۔ مگر اب انہیں لگ رہا ہے کہ کم سے کم ہمارا کردار اس قانون کو بنانے میں تو ہے جو کرپشن پر لگام لگا سکے۔ وہی بدعنوانی جو دیش کو پوری طرح سے گھن کی طرح کھا گئی ہے، اس تحریک نے ان میں ایک سنجیدگی پیدا کی ہے۔
دانشوروں اور سیاسی پنڈتوں کو بھی یہ بات حیرت میں ڈال رہی ہے کہ جو جنتا یوم آزادی یا یوم جمہوریہ کو ایک چھٹی کے دن کی طرح سے دیکھتی ہے اسے اس تحریک میں ایسا کیا نظر آیا کہ وہ بغیر بلائے رام لیلا میدان کی طرف دوڑ پڑی۔ آج بیشک بھاجپا اس بات کا سہرہ لینے کی کوشش کررہی ہے کہ انا تحریک آخر کامیاب کرانے میں اس کا اہم کردار رہا۔ بیشک رہا بھی، اگر بھاجپا کھلے عام اعلان نہیں کرتی کہ وہ انا کی تینوں شرطوں کو بغیر کسی قباحت کے قبول کرتی ہے اور حمایت کرتی ہے تو شاید حکومت اب بھی اتنی آسانی سے ہار نہیں ماننے والی تھی۔ بھاجپا کے قدم نے انا کا پلڑا بھاری کردیا لیکن بھاجپا کو یہ سوال اپنے سے ضرور پوچھنا چاہئے کہ اتنے برسوں سے وہ کرپشن کو اشو کیوں نہیں بنا پائی۔ آخر انا اسے اشو بنا لے گئے؟ حکومت نے بھی جنتا کی پکار و جنتا میں بے چینی کو ہمیشہ نظر انداز کیا۔ کرپشن اور مہنگائی سے دبی ہندوستان کی جنتا چیخ چیخ کر پکارتی رہی کہ کچھ کرو، کچھ کرو۔ لیکن کانگریس پارٹی اور حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ہمارے سیاستداں اپنے کو تسلی دینے کے لئے یہ دلیل دینی شروع کردی کہ کرپشن اب کوئی اشو نہیں رہا ہے۔
سیاستدانوں کا یہی خیال تھا کہ جنتا نے ترقی کے نام پر کانگریس کو ووٹ دیا اور کرپشن اب جنتا میں قابل قبول ہوچکا ہے۔ یعنی کرپشن اب نہ اشو بنایا جاسکے گا اور نہ ہی کرپشن کے خلاف بھارت میں کوئی تحریک چل سکتی ہے لیکن محض ساتویں کلاس پاس رائے گن کے ایک سنت نے سیاسی پانڈتوں کی ساری تھیوریوں کو ناکام کردیا۔ انا کی اپنی صاف ستھری ساکھ اور سیدھی آواز نے لوگوں کے دل کو چھولیا اور وہ سڑکوں پر آگئے۔ انا کی تحریک کامیاب ہونے کے پیچھے سب سے بڑی وجہ تھا ان کا اپنا بھروسہ ۔ اور اس کے پیچھے سبب تھا انا کا اخلاقی قد اور ان کی بے غرضی اور انا کی غیر جانبدار شخصیت۔ انا ہزارے کو دیکھ کر عام آدمی کو یہ لگا کہ یہ 73 سالہ شخص اپنے لئے جدوجہد نہیں کررہا ہے بلکہ یہ ان کے لئے محاذ آرا ہے جب کوئی سیاستداں انہی باتوں کو کہتا ہے تو جنتا اس کا مطلب دوسرا نکال لیتی ہے۔ اسے پتہ ہوتا ہے کہ موقعہ پڑنے پر یہ پارٹی یا ستداں بھی وہی برتاؤ کرے گا جس کے خلاف وہ تقریر کررہا ہے۔ سیاستدانوں پر سے جنتا کے اٹھتے بھروسے کا ہی نتیجہ ہے سیاسی پارٹیوں کو اپنی ریلیوں میں 10-20 ہزار کی بھیڑ اکٹھے کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑتا ہے۔ پارٹی چھٹ بھیا نیتاؤں پر بھی بھاری بھیڑ اکٹھے کرنے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔ چائے ،ناشتے اور گاڑیوں کا انتظام کیا جاتا ہے۔ ان نیتاؤں کا قد پارٹی میں ان کے ذریعے اکٹھے کردہ بھیڑ سے ہی طے ہوتا ہے۔ اور انا کی تحریک میں جنتا خود اپنے خرچ پر اپنا کھانا پینا لیکر خدمت کے جذبے سے آئی، اسے کسی نے مجبور نہیں کیا۔ سیاستدانوں کو اس تحریک سے سبق لینا چاہئے اور انا کی کامیابی کوسنجیدگی سے بلاغرض سمجھنا چاہئے۔ پتہ نہیں اب بھی ان کو سمجھ آئی ہے یا نہیں؟

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟