اگلا ایجنڈا چناؤ اصلاحات کا ہونا چاہئے


Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily 
Published On 3rd September 2011
انل نریندر
 لوکپال کے اشو پر انا ہزارے نے پہلی لڑائی جیت لی ہے۔ اب ٹیم انا کا اگلا ایجنڈا چناؤ اصلاحات کا ہوگا۔ اس کے اشارے وہ خود دے چکے ہیں۔ رام لیلا میدان میں انا نے کہا تھا کہ دیش کو کرپشن سے پاک کرنے کے لئے ضروری ہے کہ چناوی عمل میں وسیع اصلاحات کی جائیں۔ ورنہ جو نیتا ایک ایک چناؤ میں 10-10 کروڑ روپے خرچ کرڈالتے ہیں ، ان سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ سیاست میں سادھو سنت بنے رہیں۔ انا نے دو اشو دئے ہیں۔ پہلا ’’رائٹ ٹو رجیکٹ‘‘ دوسرا ہے ’’رائٹ ٹو ری کال‘‘یعنی چناہوا نمائندہ عوام کے حساب سے کام نہ کرے تو اسے بیچ میں ہی واپس بلانے کا حق ووٹروں کے پاس ضروری ہونا چاہئے۔ میں نے بہت عرصے پہلے یہ بات اسی کالم میں سپرد قلم کی تھی۔ جرمنی میں یہ سسٹم نافذ ہے اور موجودہ حکومت اسی کے تحت بنی ہے۔ رائٹ ٹو جیکٹ کا دباؤ سارے ممبران پارلیمنٹ پر ضرور بنے گا۔ ابھی تو یہ ہورہا ہے کہ ایک بار وہ چناؤ جیت کر آجائیں تو انہیں اگلے پانچ سال تک جنتا کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ صرف پارلیمنٹ معطل نہ ہو اور انہیں دوبارہ چناؤ کا سامنا نہ کرنا پڑے یہ ہی ایک تشویش رہتی ہے۔ جھارکھنڈ سے آزاد ممبر پارلیمنٹ اندر سنگھ نام دھاری نے کہا کہ انا کی دونوں مانگوں میں سب سے پائیدار مانگ ’’رائٹ ٹو رجیکٹ‘‘ ہے۔ اس سے سیاست میں دبنگئی اور کالی کمائی پر روک لگ سکتی ہے۔ دیش میں سب سے زیادہ ووٹر نوجوان ہیں۔آج کا نوجوان طبقہ بیدار ہوچکا ہے اور وہ کہتا ہے سیاست میں جرائم کا بول بالا ختم ہو۔ انا کی اس مانگ سے سیاست میں صاف ستھری ساکھ کے لوگوں کو ہی داخلہ ملے گا۔ نام دھاری نے کہا کہ عوامی نمائندوں کو واپس بلانے کیلئے جے پرکاش نارائن کی اپیل دیش میں مقبول ہوچکی ہے۔ حالانکہ ابھی یہ ٹیڑھی کھیر ہے۔ پنچایتوں میں دیکھا جاتا ہے کہ عوام کے نمائندوں کو واپس بلانے کی سہولت ہے۔ لیکن ایک بار چناؤ ہونے کے بعد عوام کے نمائندوں کو فی الحال واپس بلانا اس لئے ناممکن ہے کیونکہ قانون میں کوئی ایسی شق نہیں ہے جس کے تحت انہیں واپس بلایا جاسکے۔ کانگریس کی طرف سے کہا گیا ہے ’رائٹ ٹو رجیکٹ‘ ایک عام معاملہ نہیں ہے کیونکہ بڑی تعداد میں ووٹر ووٹ نہیں ڈالتے۔ انہوں نے کہا کہ آج ووٹر بیدار ہوا ہے۔ انا کی تحریک کے بعد حالات بدلے ہیں۔ ممبران پارلیمنٹ کا خیال ہے انا کا ’رائٹ ٹو رجیکٹ‘ یعنی ووٹ کے وقت بھی امیدوار کی ناپسند کا متبادل کی عوامی تحریک زیادہ طاقتور ہوسکتی ہے۔ حکومت اگر جھک گئی تو ممبران پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ سیاست کرنا مشکل ہوجائے گا۔ انا کے ساتھی اروند کیجریوال فرماتے ہیں کہ چناؤ اصلاحات کو لیکر لوگ جلد ہی ایک ایجنڈا جنتا کے سامنے لائیں گے۔ ان کی کوشش رہے گی کے اگلے سال میں دیش کی چناوی تصویر بدل جائے۔ چناؤ اصلاحات کا ایجنڈا جن لوکپال سے بھی زیادہ پائیدار ہے۔ ایک طرح سے یہ تو موجودہ سسٹم میں تبدیلی کا ایک حصہ ہے۔ اس کے لئے پورے دیش میں ایک ساتھ تبدیلی کی مشعل جلانے ہوگی۔ تبھی سیاسی پاٹیوں پر کارگر دباؤ بن پائے گا۔ کیونکہ اس تبدیلی کیلئے کئی آئین ترامیم بھی کرنی پڑ سکتی ہیں۔ ٹیم انا نے امید لگائی ہوئی ہے کہ 26 جنوری سے پہلے لوکپال قانون بن جائے گا۔ کیجریوال کو اب یہ اندیشہ نہیں ہے کے جنتا کے دباؤ کو دیکھنے کے بعد حکومت کے لوگوں میں اس میں کوئی گڑ بڑی کرنے کی ہمت ہوگی۔
یہ مناسب ہی ہے کہ چناؤ اصلاحات کے سلسلے میں انا کے ذریعے اٹھائے گئے اشوز پر بحث ہو۔ یہ بحث تبھی رفتار پکڑنی چاہئے کیونکہ بدعنوانی کی بنیادی وجہ خرچ ہوتی ہے۔ لیکن یہ ایک سچائی ہی ہے کہ لوک سبھا اسمبلی انتخابات میں امیدوار بے تحاشہ پیسہ خرچ کرتے ہیں اور چنے جانے کے بعد اس سے دوگنا روپیہ کمانے کے چکر میں لگ جاتے ہیں۔ یہ مان کر چلتے ہیں کہ اگر اگلا چناؤ وہ کسی سبب ہار بھی جاتے ہیں تو ان کے پاس اتنا پیسہ ہونا چاہئے کہ ان کا سیاسی بنواس ٹھیک طرح سے کٹ جائے۔ اس لئے وہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کے چکر میں رہتے ہیں۔ عام طور پر یہ جائز طریقے سے پیسہ کمایا جاتا ہے دراصل اس کے سبب کالی کمائی کے کاروبار پر روک لگانے کے لئے منموہن سرکار کوئی ٹھوس پہل نہیں کررہی ہے۔ چناوی عمل کو کالی کمائی سے آزاد کرنے کے لئے طرح طرح کی تجاویز سامنے آچکی ہیں۔ ان میں سے ایک تجویز یہ ہے چناؤ کا خرچ سرکاری خزانے سے ہو۔ابھی حال میں راہل گاندھی نے بھی یہ تجویز رکھی تھی کہ چناؤ کمیشن اس سے متفق نہیں ہے۔ اسے یہ خطرہ ہے کہ اس سے مسئلہ اور زیادہ پیچیدہ ہوجائے گا۔ چیف الیکشن کمشنر اس تجویز کو اس لئے خطرناک نظریہ مانتے ہیں کیونکہ انہیں اندیشہ ہے کہ امیدوار سرکاری خزانے سے ملے پیسے کے ساتھ ساتھ اپنے پیسے کا بھی استعمال کریں گے۔ سیاسی پارٹیوں کو چناؤ اصلاحات کی مخالفت کرنے کی جگہ موجودہ ماحول کو سمجھتے ہوئے چناؤ اصلاحات کی سمت میں آگے بڑھیں۔ کیونکہ بدعنوانی کی طرح سے عام جنتا اسے بھی طویل عرصے تک اب برداشت کرنے والی نہیں ہے۔ دیش کو سمت دینے والی سیاست نامناسب وسائل پر ٹکی ہو جب سیاست کی ساکھ صاف ستھری نہیں ہوگی تو پھر وہ دیش کا بھلا کیسے کر سکے گی۔
Anil Narendra, Anna Hazare, Arvind Kejriwal, Daily Pratap, Elections, Right to Recall, Right to Reject, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟