بارہویں دن بھی نہ ٹوٹاانا کا انشن


Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily 
Published On 28th August 2011
انل نریندر
گاندھی وادی انا ہزارے کا انشن 12ویں دن اس وقت تک جاری تھا جب یہ سطور قلم بند ہورہی تھیں۔ حکومت اور ٹیم انا میں کچھ نکتوں پر اتفاق رائے بنتا دکھائی دینے کے آثار شروع ہو گئے تھے،جس سے امید بندھی ہے کہ انا ہزارے اپنا نشن کسی بھی وقت توڑ سکتے ہیں۔اس سے پہلے انا کی مانگ پر سرکار نے لوک سبھا میں جن لوکپال کے مسئلے پرپہلے تو قاعدہ 184 کے تحت بحث کرانا منظور کرلیا تھا لیکن ٹھیک بحث شروع ہونے سے پہلے سرکار پلٹ گئی اور بحث کو قاعدہ193 کے تحت کرانے کا فیصلہ کرکے معاملے کو مزید الجھا دیا۔ قاعدہ 193 میں کوئی ووٹنگ نہیں ہوتی اور رہی سہی کثر یووراج راہل گاندھی کی تقریر اور موقف نے پوری کردی۔ نتیجہ یہ ہوا انا کا انشن 11 ویں دن بھی نہیں ٹوٹ سکا ۔ اب سنیچر کو بحث شروع ہوگئی۔انا ٹیم اب اس بات پر بھی اڑی ہے کہ انا ہزارے اپنا انشن تبھی چھوڑیں گے جب ان کی تینوں مانگوں پر اتفاق رائے بنے۔ تازہ اطلاع یہ ہے کہ کانگریس اور بی جے پی دونوں نے ہی تینوں مطالبات کو مان لیا ہے اور سرکار بھی مان گئی ہے۔اگر جن لوکپال بل دوسرے لوکپال تجاویز کے ساتھ سنیچر کو پیش کردیا جاتا ہے اور اس پر بحث ہوتی ہے تو ممکن ہے اس صورت میں اپنا انشن ختم کردیں لیکن وہ رام لیلا میدان میں ہی دھرنے پر بیٹھے رہیں گے۔ تب تک جب تک لوکپال بل پاس نہیں ہوجاتا۔ سنیچر کو ساری بحث راہل گاندھی کے بیان پر چلتی رہی۔ راہل نے اپنے بیان میں خبردار کرڈالا کہ شخصی فرمان سے پارلیمنٹ کی سپر میسی پر آنچ نہ آپائے۔ لوکپال بل پر 11 دن کے بعد اپنی خاموشی توڑتے ہوئے راہل گاندھی نے اپنے نظریئے کو بھی نامنظور کردیا کہ صرف لوکپال آجانے سے بدعنوانی ختم ہوجائے گی۔ انہوں نے تجویزبھی رکھی کہ مرکزی چناؤ کمیشن کی طرح پارلیمنٹ کے تئیں جوابدہ ایک آئینی لوکپال بنایا جائے۔ راہل گاندھی کی تجویز تو اچھی ہے لیکن اس سے ابھی فی الحال کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔ اس کام میں برسوں لگ سکتے ہیں۔ راہل کی لائن سے سرکار اور کانگریس دونوں کا موقف کچھ حد تک واضح ہوگیا ہے اور یہ صاف اشارہ تھا کہ سرکار انا کے مطالبات ماننے کو تیار نہیں ہے۔ کم سے کم جس طریقے سے انا چاہ رہے ہیں۔ راہل گاندھی نے جس انداز میں انا ہزارے پر حملہ بولا اس سے یہ کہا جائے کہ انہوں نے کچھ حد تک اپنا سیاسی مستقبل بھی داؤ پر لگادیا تو غلط نہ ہوگا۔ پارلیمنٹ میں د ئے گئے ان کے بیان سے جنتا میں جیسا تلخ رد عمل سامنے آیا ہے اس سے تو وہ کپل سبل ، چدمبرم اور منیش تیواری کی قطار میں کھڑے ہوگئے ہیں۔ خودکچھ کانگریسی نیتا کہہ رہے ہیں کہ راہل گاندھی کے پاس اپنی مقبولیت کو شباب پر پہنچانے کا یہ سنہرہ موقعہ تھا۔ انا کے پاس جاتے اور ان کے پیر چھوتے اور مرکزی سرکار اور انا کے درمیان پل کا کام کرتے۔ اس سے نہ صرف وہ نوجوانوں کے خیر خواہ بنتے بلکہ انا بھی اپنا انشن توڑدیتے۔ لیکن بدقسمتی سے ہوا اس کا الٹا۔ انہوں نے لوک سبھا میں انا کی تحریک کو جمہوریت کے لئے خطرہ بتا دیا۔ ایک سینئر کانگریسی نیتا کا تبصرہ تھا کہ پتہ نہیں یہ کس کانگریسی حکمت عملی ساز کے دماغ والا بیان تھا۔ بھلا ایک عدم تشدد تحریک جمہوریت کے لئے خطرہ کیسے ہوسکتی ہے؟ انہوں نے اسے پارلیمنٹ کے لئے خطرہ بتا دیا۔ انا کے حمایتیوں نے اس پر تلخ رد عمل ظاہر کرتے ہوئے راہل کے گھر پر زوردار مظاہرہ کرکے اپنا غصہ ظاہر کردیا۔ راہل کانگریس صدر بننے کی تیاری کررہے ہیں۔ دیش کا وزیر اعظم بننا ان کا مقصد ہے۔ اترپردیش اسمبلی چناؤ سرپر ہیں جہاں راہل گاندھی کا آزمائشی امتحان ہونا ہے۔ ایسے میں لوگوں کے درمیان ان کے تئیں نفرت پیدا ہونا ان کی سیاسی زندگی کے لئے کتنا خطرناک ہے؟ بتانے کی ضرورت نہیں۔ یہ پہلی بار نہیں جب راہل نے غلط مشیروں کی وجہ سے غلط وقت پر غلط بیان دیا ہے اور غلط کام کئے ہیں۔ جب پورا جن سیلاب دہلی میں امڑ رہا تھا تو ان کو کسانوں پر چلی ان کی سرکار کی گولی کے زخم دیکھنے پنے بھیج دیا گیا۔ ایک کانگریسی نیتا نے تو یہاں تک کہا ان کے اپنے ہی مشیر ان کی نیا ڈبونے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ مشیر پورے جن لوکپال تحریک پرنہ صرف انا اور دیش کی جنتا کو بے وقوف بنا رہے ہیں بلکہ راہل کو بھی دنیا کی نظروں میں بیوقوف بنا دیا ہے؟

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!