اناکے جن لوکپال پر بھاجپا کا موقف کیا ہے؟
Published On 25th August 2011
انل نریندر
دیر سویر انا کے جن لوکپال بل پر پارلیمنٹ میں بحث ضرور ہوگی۔ ٹیم انا یہ سمجھ گئی ہے کہ مختلف سیاسی پارٹیوں کی حمایت انہیں ضرور چاہئے اس لئے ٹیم انا نے مختلف پارٹیوں کے ممبران پارلیمنٹ پر دباؤ بنانے کی حکمت عملی پر کام شروع کردیا ہے۔ جن لوکپال بل کی حمایت میں ہزاروں لوگوں نے دہلی سمیت دیش کے مختلف حصوں میں ممبران پارلیمنٹ اور مرکزی وزراء کے گھروں پر مظاہرے کئے ہیں۔ وزیراعظم منموہن سنگھ، وزیر انسانی وسائل ترقی کپل سبل، دہلی کی وزیر اعلی شیلا دیکشت،بھاجپا کے سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی، ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی و راج ناتھ سنگھ سبھی کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی پارلیمنٹ میں بڑی اپوزیشن پارٹی ہے۔ آج تک بھاجپا نے یہ نہیں بتایا کہ وہ انا کے جن لوکپال بل کے ساتھ ہے یا نہیں؟ آئے دن یہ کہنے سے اب کام نہیں چلے گا کہ سرکاری لوکپال بل میں مختلف خامیاں ہیں۔ آپ جن لوکپال بل کی بات کریں اس میں آپ کو کیا کیا قبول ہے اور کیا نہیں؟ جو نہیں ہے وہ کیوں نہیں ہے؟ اور اس میں آپ کیا ترمیم چاہیں گے؟ سیدھے سوالات کا سیدھا جواب چاہئے انا کے حماتیوں نے سینئر بھاجپا لیڈر لال کرشن اڈوانی کو بھی گھیراؤ سے نہیں بخشا۔ پیر کی رات قریب 10 بجے ان کی رہائشگا ہ پر انا حمایتی پہنچے اپنے گھر کے باہر نعرے لگا رہے انا حمایتیوں سے کہا ’’ہم سرکار کے ذریعے پیش کردہ لوکپال بل سے خوش نہیں ہیں۔ یہ بہت ہی کمزورڈرافٹ ہے۔ اس کے دائرے میں وزیر اعظم نہیں آتے۔ اس وقت کرپشن شباب پر ہے۔ ہم سرکار کے اس بل کے حق میں قطعی حمایت نہیں کریں گے۔ انہوں نے نچلی عدالتوں کو لوکپال کے دائرے میں شامل کرنے کے معاملے میں کہا ان کی پارٹی اس موضوع پر غور کرنے کیلئے تیار ہے۔ اڈوانی نے کہا ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ ایک مضبوط اور ایک بااثر لوکپال وجود میں آئے۔
بھاجپا راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر ارون جیٹلی نے ایک انٹرویو میں ان مسئلوں پر اپنے خیالات رکھے ہیں۔ سوال کیا آپ سول سوسائٹی کے جن لوکپال بل سے متفق ہیں؟ کیا وزیر اعظم اور عدلیہ لوکپال بل کے دائرے میں آنے چاہئیں؟ جواب دیکھے ۔۔۔ لوک پال کی تقرری میں سرکاری مداخلت اور دباؤ نہ ہو، تقرری کے لئے باقاعدہ ایک پائیدار اور آئینی مشینری ہو۔ اچھے اور مضبوط لوکپال کے لئے اس کی تقرری غیر جانبدار طریقے سے ہو یہ پہلی شرط ہے۔ قومی سلامتی کے اشوز کو چھوڑ کر وزیر اعظم لوکپال کے دائرے میں ہوں۔ یہ ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں۔ جہاں تک سوال ہے عدلیہ کا اس کے لئے قومی جوڈیشری کمیشن ہونا چاہئے جس کے ذریعے عدلیہ میں بدعنوانی پر کنٹرول مشینری بنے۔ ہم نے جو باتیں کہی ہیں وہ تنظیمی فیز گارڈ سے وابستہ ہیں۔ انا کے انشن کو تقریباً 9 دن گذر چکے ہیں اور بھاجپا نے ابھی تک جن لوکپال پر اپنے پتے نہیں کھولے؟ کہیں آپ بھی ان فیصلوں کی پوزیشن میں نہیں ہیں؟ جواب قطعی نہیں۔ لوکپال کے مسئلے پر جو اہم نکتے ہیں بھاجپا ان پر اپنی رائے سامنے رکھ چکی ہے۔ آل پارٹی میٹنگ کے بعد ہمارے سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی اور صدر نتن گڈکری نے اس بارے میں کھل کر اپنی رائے رکھی تھی۔
بھاجپا کے دو ممبران پارلیمنٹ نے کھل کر جن لوکپال بل کی حمایت کی ہے۔ ان میں ایک ہیں ورون گاندھی دوسرے ہیں رام جیٹھ ملانی۔ ورون کا کہنا ہے کہ انا کا بل بطور پرائیویٹ بل لوک سبھا میں پیش کریں گے۔ راجیہ سبھا میں بھاجپا ایم پی رام جیٹھ ملانی نے بھی ٹیم انا کے بل کی حمایت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انا کے بل کو پوری طرح نظرانداز کرنا اب سیاستدانوں کے لئے ممکن نہیں ہے۔ جیٹھ ملانی جن لوکپال کی دو بڑی شقوں سے پوری طرح متفق ہیں۔ ان میں وزیر اعظم کو لوکپال کے دائرے میں لانا اور عدلیہ کو شامل کرنا خاص ہیں۔ قابل غور ہے کہ وزیر اعظم کو لوکپال میں لانے کا مطالبہ تو بھاجپا کرہی رہی ہے لیکن ججوں کے لئے وہ الگ ادارہ بنائے جانے کی حمایتی ہے۔ مگر جیٹھ ملانی کا خیال ہے کہ آئین کو پوری طرح سے نافذ کرنا ججوں کی تقرری جیسے اشوز پر شکایتیں دور کرنے کا سب سے کارگر طریقہ یہی ہے کہ انہیں بھی لوکپال کے دائرے میں رکھا جائے۔ وقت آگیا ہے کہ ٹیم انا اور جنتا چاہتی ہے کہ بھاجپا ہر نکتے پر اپنا موقف واضح کرے۔ چاہے پارلیمنٹ کے باہر یا پارلیمنٹ کے اندر۔
Anil Narendra, Anna Hazare, BJP, Daily Pratap, Lokpal Bill, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں