کہاں چھپے بیٹھے ہیں راہل گاندھی؟
Published On 24th August 2011
انل نریندر
اس میں کوئی شبہ نہیں کے انا ہزارے ایک بہت ہمت اور پختہ عزم کے انسان ہیں ۔ جو ٹھان لیتے ہیں وہ کر کے ہی ہٹتے ہیں۔ ان کی بھوک ہڑتال کو آج آٹھ د ن ہوچلے ہیں۔ انا کے وزن میں پانچ کلو کی گراوٹ آچکی ہے اور یہ آگے بھی جاری رہ سکتی ہے لیکن ان کا حوصلہ قائم ہے۔ انا نے بتایا کہ 2007 میں انہوں نے پنے کے نزدیک سنت گیانیشور کی سمادھی کے پاس 12 دن تک انشن کر آر ٹی آئی کے خاتمے کی حکومت کی کوشش کو ناکام بنادیا تھا۔ لیکن یہ چار سال پہلے کی بات ہے۔ عمر کا بھی تقاضہ ہے۔ انا کی صحت کی اب سبھی کو فکر ہونی شرو ع ہوگئی ہے۔ وقت اب نہ تو انا کی ٹیم کے پاس زیادہ ہے اور حکومت کے پاس تو بالکل نہیں۔ اگر انا کی صحت بگڑ گئی تو برا ہوسکتا ہے۔ جسے اس حکومت کے لئے سنبھالنا مشکل پڑ جائے گا۔ مجھے سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ انا اور حکومت کے درمیان آئے اس ڈیڈ لاگ کو آخر کوئی توڑنے کی کوشش کیوں نہیں کررہا؟ غیرمصدقہ ذرائع کا کہنا ہے روحانی پیشوا میوجی مہاراج اور مہاراشٹر حکومت کے ایڈیشنل سکریٹری امیش سارنگی نے رام لیلا میدان آکر انا سے بات چیت کی۔ میوای مہاراشٹر سے تعلق رکھتے ہیں۔ مہاراشٹر کے بڑے سیاستدانوں کے روحانی گورو ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ کیونکہ انا بنیادی طور سے مہاراشٹر کے باشندے ہیں اس لئے ممکن ہے کے مہاراشٹر کے سرکردہ کانگریسی شرد پوار ، سشیل کمارشنڈے، ولاس راؤ دیشمکھ بھی حکومت کی طرف سے انا کو منانے کی کوشش کریں گے۔ لیکن میری رائے میں سب سے بہتر شخص کانگریس جنرل سکریٹری راہل گاندھی تھے۔ راہل گاندھی کے پاس سنہرہ موقعہ تھا لیکن وہ چوک گئے۔یہ دکھ کی بات ہے کہ انا کی تحریک پر راہل گاندھی نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ اگر راہل گاندھی انا ہزارے کی تحریک کو لیکر کسی فیصلہ کن ثالث کے کردار میں سامنے نہیں آئے اور یوں ہی منہ چھپاتے رہے تو بلا جھجھک کہا جاسکتا ہے کہ حالیہ دنوں میں ان کی تمام سیاسی کوششیں مستقبل میں نتیجوں کے معاملے میں صفر ثابت ہوسکتی ہیں۔ جنہیں ذرا بھی سیاسی سمجھ ہے وہ جانتے ہیں کہ اس وقت دیش کس طرح انا کی تحریک میں شرابور ہے اور نوجوان لوگوں کو بھی سینکڑوں سوال پوچھنے ہیں۔ ایسے میں راہل گاندھی جو خود حالیہ دنوں میں جن وادی قسم کی سیاست کرتے ہوئے نظر آئے ہیں ، جو حالیہ دنوں میں اترپردیش سے لیکر مہاراشٹر تک کے کسانوں کے ہتیشی اور خیر خواہ اور رہنما بن کر سامنے آئے ہیں، وہ اس پوری تحریک میں اگر غیر جانبدار بنے رہنے کی کوشش کرتے ہیں تو دیش کی عوام ان کی علیحدگی کو شاید قبول ہی کرے۔ جو غیر جانبدار ہیں وقت بتائے گا اس کا بھی تاریخ راہل گاندھی کو اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہئے اگر انہیں 2014 ء کے بعد وزیر اعظم بننے کی اپنی سیاسی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے ہے تو انہیں دیش کے برننگ اشوز پر سامنے آنا ہی ہوگا۔ دیش کو ان کے موقف کا پتہ ہونا چاہئے کیونکہ جو شخص دیش کا خیر خواہ بننے کی کوشش کررہا ہوں ، جو موجودہ دور میں کسانوں اور عام لوگوں کا سب سے بڑا ہتیشی بن کر سامنے آرہا ہوں وہ دیش کی ایسی تحریک کو بھلا نظرانداز کیسے کرسکتا ہے۔ جو عام لوگوں کے موجودہ اور مستقبل دونوں کو طے کرتا ہو ۔ اگر اترپردیش میں اسمبلی چناؤ میں پوری خود اعتمادی کے ساتھ راہل گاندھی کو اترنا ہے تو انہیں انا کی تحریک میں اپنا موقف صاف کرنا چاہئے اور بلا تاخیر بیچ میں کودنا چاہئے۔ انہیں پوری کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اس تعطل کو توڑیں اور دیش کو بچائیں۔ انہیں یہ صاف کرنا چاہئے کہ وہ جنتا کے ساتھ ہیں ، ہٹھ دھرمی اور غرضی لیڈروں کے ساتھ نہیں۔
Anil Narendra, Anna Hazare, Congress, Corruption, Daily Pratap, Rahul Gandhi, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں