ان اہم مسئلوں پر اختلاف کا جلد حل نکالنا ہوگا


Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily 
Published On 24th August 2011
انل نریندر
 جیسا کہ میں نے کل قارئین کوبتایا تھا کہ جن لوکپال بل میں کیا ہیں اہم نکتے یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ حکومت اور ٹیم انا کے درمیان کن کن مسئلوں پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ جنہیں بلا تاخیر حل کرنا ہوگا۔اس تعطل کو ہر حالت میں توڑنا ہوگا۔ سب سے بڑا اختلاف وزیر اعظم کو لوکپال بل کے دائرے میں لانے پر ہے۔ سرکاری لوکپال بل میں وزیر اعظم کو اس قانون کے دائرے سے باہر رکھا گیا ہے۔ جب وہ عہدہ چھوڑیں گے تب کرپشن کے الزامات کی جانچ لوکپال کرسکتا ہے۔ انا کی ٹیم اس کے لئے تیار نہیں۔ وہ کہتی ہے کہ وزیراعظم کو بھی لوکپال کے دائرے میں آنا چاہئے۔ اس پر وزیر اعظم کو پہل کرنی ہوگی۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے خود کئی بار یہ کہا ہے کہ وزیر اعظم کو اس کے دائرے میں ہونا چاہئے۔ 20 ستمبر2004 ء دہرہ دون میں آل انڈیا لوک آیکت اور ڈپٹی لوک آیکت کانفرنس میں شامل ہوتے ہے وزیر اعظم نے کہا ’’اس بات پر وسیع طور پر اتفاق رائے ہے کہ براہ راست یا غیر براہ راست طور پر عوام کے چنے نمائندوں کو لوکپال کے دائرے میں لایا جائے۔ اس میں پارلیمنٹ ، وزیر اور خود وزیر اعظم کا عہدہ بھی شامل ہو۔‘‘ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ لوکپال کی ضرورت اب پہلے سے کہیں زیادہ ہوگئی ہے۔ اس کے لئے وقت نہ گنوائیں۔ اس سمت میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ منموہن سنگھ نے آگے کہا تھا کہ متحدہ ترقی پسندمحاذ یا یوپی اے سرکار نے مشترکہ کم از کم پروگرام میں لوکپال بل لانے پر اتفاق رائے ظاہر کیا گیا ہے اور یہ اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ یہ بات عام طور پر تسلیم کرلی جاتی ہے کہ کرپشن کی ایک خاص وجہ عام زندگی میں شفافیت کی کمی ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کو اب اپنے وزرا کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔ وہ کیا چاہتے ہیں ، اور ان سے جنتا کیا چاہتی ہے اس کی زیادہ پرواہ کرنی چاہئے اور خود سے اعلان کردینا چاہئے کہ لوکپال کے دائرے میں وزیر اعظم، وزیر اور پارلیمنٹ سبھی آئیں گے۔ دوسرا بڑا اختلاف عدلیہ کو لیکر ہے۔ سرکار کا موقف ہے کہ عدلیہ میں اصلاحات کے لئے ہم الگ سے قانون لا رہے ہیں اس لئے جوڈیشیری کو ان جن لوکپال بل میں شامل نہیں کرنا چاہئے۔ حالانکہ انا چاہتے ہیں کہ عدلیہ بھی اس میں شامل ہو لیکن میری رائے میں انا کو اس اشو کو ترک کردینا چاہئے اور جوڈیشری کے لئے مجوزہ اصلاحات قانون کی حمایت کردینا چاہئے۔ ایک اختلاف سی بی آئی اور سی بی سی کس کے ماتحت ہو اس کو لیکر ہے۔ ٹیم انا چاہتی ہے سی بی آئی ہر حالت میں لوکپال کے دائرے میں ہو۔ سرکار اس کے لئے تیار نہیں۔ یہ ایک بہت اہم اشو ہے۔ اس میں کوئی ایسا بیچ کا راستہ نکل سکتا ہے کے سی بی آئی اور سی بی سی مختار ہو اور سرکار کے ماتحت نہ ہو۔ سرکار اس کے کام کاج میں مداخلت نہ کرسکے۔ ایک اشو پارلیمنٹ کے اندر ممبران پارلیمنٹ کا برتاؤ۔ جن لوکپال بل میں ممبران پارلیمنٹ کا ایوان کے اندر کا برتاؤ بھی دائرے میں آئے گا جبکہ حکومت نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں ممبران کا برتاؤ لوکپال کے دائرہ اختیار میں نہیں آئے گا۔ البتہ پارلیمنٹ سے باہر کے کاموں پر لوکپال جانچ کرسکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس پر ٹیم انا کو سرکار کی بات مان لینی چاہئے۔ ہندوستان کا آئین بھی ممبران کو پارلیمنٹ کے اندر جو کچھ ہوتا ہے اس سے پروٹکٹ کرتا ہے ،سپریم کورٹ نے بھی یہ مانا ہے۔ اس لئے اس پر انا کو سمجھوتہ کرلینا چاہئے۔ ایک بڑا اختلاف افسر شاہی کو لیکر ہے۔سرکار چاہتی ہے گروپ اے سے نیچے کی افسرشاہی جانچ کے دائرے سے باہر ہو ۔ اس کے لئے الگ سسٹم ہوگا۔ اوپر کے افسران کی جانچ لوکپال کرسکتا ہے۔ جن لوکپال میں پوری افسرشاہی شامل ہے۔ چاہے وہ مرکز کی ہو یا ریاستی حکومتوں کی۔ اپر سکریٹری اور اس سے اوپر کے سطح کے افسران کے خلاف شکایتوں کی جانچ کا اختیار جن لوکپال کے دائرے میں ہے اس میں سرکار کو نرم ہونا پڑے گا۔ زیادہ تر عوام نچلی افسر شاہی سے پریشان ہے۔ کرپٹ افسروں کو سزا دینے کی شق میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ لوکپال کرپٹ سرکاری ملازمین کے خلاف اسپیشل عدالت میں مقدمہ کرسکے گا۔ ساتھ ہی حکومت کو ڈسپلنری کارروائی کی سفارش کرنے کا بھی حق ہونا چاہئے۔ جانچ کے بعد سرکار ضرورت پڑنے پرملازم کو برخاست کرسکے گی۔ اگر کارروائی نہیں کی گئی تو لوکپال کو اس کا سبب بتانا ہوگا۔ جانچ کے دوران ملازم کو لوکپال کی سفارش پر ملازم کا تبادلہ یا معطلی کے اختیار پر سرکار کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ اگر اسپیشل عدالت میں ملازم ملزم پایا جاتا ہے تو قانون اپنا کام کرے گا۔ مرکز میں لوکپال کے طرز پر لوک آیکت قانون کے لئے ریاستوں کو ماڈل کی شکل میں اس بل کو بھیجا جاسکتا ہے۔ ٹیم انا کو یہ پوزیشن قابل قبول ہونی چاہئے کیونکہ آئین ریاستوں کو کئی اختیار دیتا ہے اور مرکز اپنے سارے قوانین ریاستوں پر نہیں تھونپ سکتا۔ حکومت نے کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو سرپرستی دینے والوں کے لئے الگ سے بل پیش کیا ہے۔ بل میں الگ سہولت دینے کی ضرورت نہیں۔ شکایت کے جھوٹی یا فرضی نکلنے پر سزا کو کم کرنے پر غور کیا جاسکتا ہے۔ لوکپال بل کے مسودے میں آزادانہ جانچ سسٹم کا انتظام کیاگیا ہے تب تک سی بی آئی و دیگر متعلقہ ایجنسیوں سے افسران کی خدمات سونپی جا سکتی ہیں اس پر رائے بنانے کی کوشش ہونی چاہئے۔ ایک مقررہ میعاد میں (6 مہینے ) میں حکومت ایک آزاد انکوائری ایجنسی قائم کردے گی۔ جس کے ماتحت سی بی آئی ، سی بی سی آ سکتی ہیں۔ ایک بڑا اختلاف لوکپال میں کون کون ہوگا اس پر بھی ہے۔ جن لوکپال بل میں اس کے لئے دو مرحلے کی کارروائی ہے۔ایک تفتیشی کمیٹی ان میں10 ممبران کا سلیکشن ہوگا ان میں سے پانچ بھارت کے چیف جسٹس ،چیف الیکشن کمشنر، کمپٹرولر آڈیٹر جنرل نہیں لئے جائیں گے اور یہ پانچ ممبر سول سوسائٹی سے چنے جائیں گے۔ سرکاری بل میں ایک آسان پروسیس ہے۔ سلیکشن کمیٹی نے وزیر اعظم ، اپوزیشن لیڈر( دونوں ہاؤس کے) ایک سپریم کورٹ کے جج، ہائی کورٹ کا ایک جج اور ایک جانے مانے ماہر عدلیہ اور سماج کی ایک نامور شخصیت۔ یہ ایک ایسا اشو ہے جس پر غور کیا جانا ضروری ہے۔ اس کے لئے دونوں فریق تین مہینے کا وقت لے سکتے ہیں تاکہ یہ پروسیس طے ہوسکے۔
باقی اشو تو اور بھی ہیں لیکن میں نے اپنی سمجھ سے اہم اشوز کو یہاں لیا ہے۔ میں کوئی ماہر نہیں ہوں ہوسکتا ہے کہ میں پوری طرح سے صحیح بھی نہ ہوں۔ لیکن میری کوشش یہ ہے کہ سمجھوتہ ہونا چاہئے اور بھی جلد۔ اس کے لئے بیچ کا کوئی راستہ نکالنا ہوگا۔ دونوں فریقین کو اپنا موقف نرم کرنا ہوگا۔ یہ تعطل اب زیادہ دن تک نہیں چل سکتا۔ ہرگذرتا دن نہ تو دیش کے لئے اچھا ہے اور نہ ہی ٹیم انا کیلئے اور نہ حکومت کے لئے۔
 Anil Narendra, Anna Hazare, Daily Pratap, Lokpal Bill, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟