حکومت نے لڑائی کا رخ بدل دیا: انابنام پارلیمنٹ


Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily 
Published On 26th August 2011
انل نریندر
بدھوار کے روز ٹیم انا کے انشن کے مسئلے پر بلائی گئی سبھی سیاسی پارٹیوں پر مشتمل آل پارٹی میٹنگ کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوگئی۔ اس پر ہمیں کوئی تعجب نہیں ہوا۔ اشارے تو پہلے ہی مل رہے تھے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی انا کے جن لوکپال بل کو جوں کا توں حمایت نہیں دے سکتی۔ کچھ مسئلوں پراتفاق تھا کچھ پر بالکل نہیں۔اور کچھ پر ہو بھی سکتا ہے۔ ہاں ایک بات پر تمام اپوزیشن میں اتفاق تھا کہ سرکاری لوکپال بل بالکل قابل قبول نہیں اور اسے سرکار کو واپس لے لینا چاہئے۔ بھاجپا سمیت کچھ پارٹیا چاہتی تھیں کہ سرکار اپنے لوکپال بل کو پوری طرح واپس لے اور ایک نیا مجوزہ لوکپال بل پیش کرے جس میں انا کے جن لوکپال بل کے کچھ اہم نکتوں کو بھی شامل کیا جائے۔ لیکن حکومت اور اس کی اتحادی پارٹی لوکپال بل واپس لینے کو تیار نہیں ہوئیں۔ میٹنگ میں این ڈی اے و لیفٹ پارٹیوں کے ساتھ والی9 پارٹیوں کے مورچے نے ایک بار پھر سیدھے طور پر سرکاری لوکپال بل کو مسترد کردیا۔ لیکن خاص بات یہ رہی کہ کسی بھی پارٹی نے پوری طرح سے انا ہزارے کے جن لوکپال کے حق میں رائے نہیں دی ہے۔ لوک سبھا میں اپوزیشن کی لیڈر سشما سوراج کا مطالبہ تھا کہ سرکار اپنے لوکپال بل کو واپس لے کر نیا پختہ بل لے کر آئے جس میں جن لوکپال بل کے کچھ شقوں کو شامل کرلیا جائے۔ یہ ایک غیر معمولی صورتحال بنی ہوئی ہے۔ ایسے وقت میں قاعدے اور دوسرے ضابطوں کو نظر انداز کرکے کوئی راستہ نکالا جاسکتا ہے۔ مارکسوادی لیڈر سیتا رام یچوری نے بھی موجودہ لوکپال بل کو بیکار قراردیا ہے۔ اجیت سنگھ نے سرکار سے موجودہ بل کو واپس لینے کی شرط رکھی۔ سپا پردھان ملائم سنگھ یادو نے بل کے خاکے پر ہی سوال کھڑے کردئے اور اپنی طرف سے اس میں کئی نئی باتیں جوڑنے کی مانگ رکھ دی۔ راشٹروادی کانگریس پارٹی کے لیڈر شرد پوار نے انا ہزارے کی پرانی تاریخ یاد دلائی۔ لیکن اسے کسی نے زیادہ توجہ نہ دی۔ شیو سینا کے منوہر جوشی نے نہ صرف انا ہزارے کی تعریف کی بلکہ انشن تڑوانے کی کوشش پر بھی زوردیا۔
جہاں تک نکتوں پر اتفاق رائے کا سوال ہے تو بدھوار کی دیر رات تک دونوں فریقین میں تنا تنی رہی۔ دن میں مرکزی وزیر قانون سلمان خورشید اور ٹیم انا کے تین ممبروں کیجریوال، پرشانت بھوشن، کرن بیدی نے بات چیت کی۔ ذرائع کے مطابق اس میں سات مسئلوں پر تعطل بنا رہا۔ اس کے بعد وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر چلی آل پارٹی میٹنگ میں بھی عام اتفاق رائے نہ ہوسکا۔ دیر رات وزیر خزانہ اور ٹیم انا کے تین ممبران کی بات چیت ہوئی اور یہ بھی ایک طرح سے بے نتیجہ ثابت ہوئی۔ اب جمعرات کو دونوں فریقوں میں بات چیت جاری رہ سکتی ہے لیکن تازہ خبر ہے کہ یہ بات ناکام ہوگئی ہے۔انا ہزارے نے اپنی طرف سے وزیر اعظم کو تین باتیں بھیجی ہیں جن پر غور کیا جارہا ہے اور اسے مستقبل میں اب سرکاری فریق سے بات چیت بھی کرنی چاہئے یا نہیں ؟ اب جن سات مسئلوں پر اختلاف قائم ہے وہ ہیں(1) لوکپال بل کی تشریح کیا ہو؟( 2)وزیر اعظم کو لوکپال کے دائرے میں لایا جائے؟( 3) بڑی عدلیہ کوبھی اس کے دائرے میں لایا جائے یا نہیں؟ (4) کیا پارلیمنٹ کے اندر ممبران کے برتاؤ اور ان کے رویئے کوبھی اس میں شامل کیا جائے یا نہیں؟(5) پوری افسر شاہی جس میں چھوٹی اور بڑی شامل ہیں کو لوکپال کے دائرے میں ہونا چاہئے یا نہیں؟( 6) ریاستوں میں لوک آیکت کے لئے قانون کے تحت انہیں کیا اختیار دئے جائیں؟ساتواں مسئلہ ہے کہ لوکپال کا عمل کیا ہو؟ میں نے اسی کالم میں دونوں فریقین کے ان مسئلوں پر موقف پہلے ہی قارئین کے سامنے رکھ دئے تھے۔ اس لئے انہیں دوہرانا نہیں چاہتا۔ اب آگے کیا ہوگا؟ ٹیم انا کو خطرہ ہے کہ انا کی گرتی صحت کی آڑ میں حکومت کسی وقت اپنی چال چل سکتی ہے۔ اس کے تحت انا کو رام لیلا میدان سے ہٹا کر ہسپتال میں بھرتی کرواسکتی ہے۔ اس بات کو بھی تقویت ملتی ہے کہ رام لیلا میدان میں پولیس ملازمین کی تعدا بڑھا دی گئی ہے۔ اگر انا کو ہسپتال لے جایا جاسکتا ہے تو یہ ان کی جان بچانے کے نام پر ان کو گلوکوس بھی دیا جاسکتا ہے۔ بدھ کو وزیر داخلہ پی چدمبرم کے اس بیان پر غور کریں کہ کسی بھی شخص کو اپنی جان دینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ لگتا ہے کہ انا کو بھی سرکار کے ارادے کی بھنک لگ گئی ہے اس لئے انا نے اپنے حمایتیوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا اگر سرکار انہیں اٹھا کر ہسپتال لے جائے تو وہ لوگ امن قائم رکھیں۔ توڑ پھوڑ کی کوئی حرکت نہ کریں اور اسی طرح پر امن تحریک جاری رکھیں، جیل بھریں۔ اگر جمعرات کو انا کا انشن اتفاق رائے سے ٹوٹنا ممکن نہیں ہوا تو زبردستی انا کو ہسپتال لے جایا جائے گا۔ وقت دونوں کے پاس نہیں ہے۔ دن بدن انا کی صحت بگڑے گی۔ بدھوار کو منموہن سنگھ سرکار کی چال کامیاب ہوگئی۔ اب یہ لڑائی انا بنام پارلیمنٹ ہوتی جارہی ہے۔ اب جو بھی آگے بات چیت ہوگی اس میں سرکار کو چاہئے کہ بڑی اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں کو بھی میٹنگ میں ساتھ بٹھائیں۔ تاکہ سب کا موقف ہرمسئلے پر صاف ہو۔ انا کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کی لڑائی آئین کے خلاف نہیں سسٹم کے خلاف ہے۔ ایسے کسی نکتہ پر زور نہیں دینا چاہئے جو بھارت کے آئین کے خلاف جاتا ہو۔ اگر ایسا ہوا تو یہ لڑائی ایک نہایت خطرناک شکل اختیار کرسکتی ہے جو شاید خود انا بھی نہیں چاہیں گے۔
Anil Narendra, Anna Hazare, BJP, Congress, Corruption, Daily Pratap, Manmohan Singh, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟