آخر کس جن لوکپال بل کیلئے جنتا سڑکوں پر آئی ہے


Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily 
Published On 23rd August 2011
انل نریندر
انا ہزارے کو بھوک ہڑتال پر بیٹھے سات دن گذر گئے ہیں۔ ابھی تک ان کی طبیعت ٹھیک ہے لیکن جیسے جیسے وقت گذرتا جارہا ہے ایک خطرہ بھرا وقت آنے والا ہے۔حالانکہ انا نے ایک بار پہلے 18 دن کی بھوک ہڑتال کی تھی لیکن اب وہ 74 سال کے ہوگئے ہیں اور ان کی صحت کو روزمرہ اب خطرہ بڑھے گا۔ اس لئے ان کے مطالبات کا حل جلد ہی نکالنا چاہئے۔ ؔ نے والے تین چار دن کافی اہم ہوسکتے ہیں۔ اگر انا کو کچھ ہوگیا تو حالات بے قابو ہوسکتے ہیں۔ اس صورت میں کچھ بھی ہوسکتا ہے اس لئے سرکار کے پاس اب زیادہ وقت نہیں ہے۔ اسے بہت جلد حل نکالنا ہوگا۔ سرکار کو دراصل سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کرے تو کرے کیا۔ ایک طرف نویں کلاس پاس انا ہزارے دوسری طرف سرکار کے اعلی تعلیم یافتہ اور دنیا دیکھے وزرا کی فوج ۔ اگر انا کے سیدھے سادھے جذبات ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ وزیر مسٹر کپل سبل اور مسٹر پی چدمبرم جیسے چالاک اور سمجھ رکھنے والوں کی بھیڑ کو نہیں سمجھ میں آرہا ہے کہ انا کا کیا کریں۔ پوری سرکاری مشینری اپنی دلائل کے مزائل داغ داغ کر ہلکان ہوتی جارہی ہے لیکن 74 سالہ بزرگ کے دل کو سیدھے چھونے والے سچے جذباتوں پر اثر بھی نہیں پڑتا۔
آخر ایسا کیا ہے۔ ایک کم تعلیم یافتہ اور گاؤں کے پس منظر میں زندگی گذارنے والے بزرگ کی بات نہ صرف ریڑی والوں اور درمیانے طبقوں کو سمجھ میں آتی ہے بلکہ ان کی ایک اپیل پر انجینئر اور مینجمنٹ اور کارپوریٹ یا ڈاکٹروں کی تعلیم حاصل کررہے کالج کے طالبات و طلباء ان کی حمایت میں سڑکوں پر اتر آتے ہیں۔ چدمبرم ، سبل اور سلمان خورشید جیسے ہوشیار اور ہارورڈ یونیورسٹی سے ڈگری یافتہ وزیر اور کانگریس کے اعلی تعلیم یافتہ ترجمان اور نیتاؤں کی فوج کے تمام دلائل کو یہ بزرگ ایک لائن میں مسترد کردیتا ہے۔ سرکاری دلائل اور تمام قلع بندی کو ایک جھٹکے میں یہ کہہ کر انا اڑا دیتے ہیں کہ جنتا بالاتر ہے پارلیمنٹ نہیں۔ وہاں بیٹھے لوگ چن کر نہیں آئے بلکہ ہم نے ان کو چن کر بھیجا ہے۔
سنیچر کی شام میں اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ رام لیلا میدان گیا تھا۔ وہاں کا ایک نظارہ دیکھنے لائق تھا۔ ٹی وی پر دیکھنے اور وہاں موجود ہونے میں فرق پڑتا ہے۔ ویسے بھی ہر دیش واسی کا فرض ہے اور خاص طور پر دہلی والوں کا وہ ایک بار رام لیلا میدان جائیں اور یہ کسی دوسرے طریقے سے انا کی حمایت کریں۔ جب ہم اندر گھسے ہی تھے تو سامنے سے ایک غیر ملکی آرہا تھا۔ اس کے ساتھ ایک بوڑھی عورت تھی۔ میں نے انہیں روک لیا اور پوچھا کے آپ یہاں کیسے؟ اور کہاں سے آئے ہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ میں جرمنی سے ہوں اور ہم (میں اور میری ماں) انا ہزارے کی حمایت کرنے کے لئے آئے ہیں۔
جدھر بھی نظر گھماؤ ’میں انا ہی ہوں‘ کی گاندھی ٹوپیاں نظر آرہی تھیں۔ میرا خیال ہے کہ جتنی گاندھی ٹوپیاں انا کی تحریک میں نظر آئیں اتنی شاید گاندھی جی کے ستیہ گرہ میں بھی نہیں دیکھی گئی ہوں گی۔ ایک نوجوان لڑکی سے میں نے پوچھا کہ آپ انا کو کیوں حمایت کررہی ہیں؟ اس کا جواب تھا کہ وہ (انا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) 74 برس کے ہیں آخر وہ لڑائی کس کی لڑ رہے ہیں؟ ایک نوجوان ہمیں ایسا ملا جس نے اپنے سارے بال کٹوا لئے تھے بس بالوں سے صرف انا ہی لکھا ہوا تھا۔ ایک آدمی پولیو کا مریض تھا جو بیساکھی کے سہارے انا کی حمایت میں نعرے لگا رہا تھا۔ ایک خاتون اپنے چھوٹے سے بچے کے ساتھ آئی تھی ۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا ترنگا تھا میں نے لڑکے سے پوچھا کیا آپ کو جن لوکپال کے بارے میں پوری واقفیت ہے؟ اس نے کہا کہ میں اتنا جانتا ہوں کہ انا بدعنوانی کے خلاف لڑرہے ہیں اور میں اسی لئے انہیں حمایت دے رہا ہوں۔ مجھ سے کئی قارئین نے پوچھا کہ آخر انا کا جن لوکپال بل ہے کیا؟ میں ابھی قارئین کی جانکاری کے لئے انا کے ذریعے تیار کردہ جن لوکپال کی دفعات اور شقوں کو سامنے رکھ رہا ہوں۔
سب سے پہلے کون چنے گا لوکپال ۔ لوکپال کا چناؤ وزیر اعظم ، اپوزیشن لیڈر، سپریم کورٹ کے سب سے کم عمر کے دو جج ، سب سے کم عمر کے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، بھارت کے کمپٹرولر آڈیٹرجنرل اورچیف الیکشن کمشنر کریں گے۔ لوکپال بل کی خاص دفعات یہ ہیں۔ اس کے تحت مرکز میں لوکپال ریاستوں میں لوک آیکت کی تشکیل ہوگی۔ یہ ادارہ چناؤ کمیشن اور سپریم کورٹ کی طرح سرکار سے آزاد ہوگا۔ کسی بھی مقدمے کی جانچ ایک سال کے اندر پوری ہوگی۔ سماعت اگلے ایک سال میں پوری ہوگی۔ یعنی کسی بھی کرپٹ نیتا یا افسر یا جج کو دو سال کے اندر جیل بھیجا جاسکتا ہے۔ کرپشن کی وجہ سے سرکار کو جو نقصان ہوا ہے، جرائم ثابت ہونے پر اسے قصوروار سے ہی وصولا جائے گا۔ اگر کسی شہری کا کام وقت پر نہیں ہوتا تو لوکپال قصوروار افسر کو جرمانہ لگائے گا، جو شکایت کرنے والے کو معاوضے کے طور پر ملے گا۔ لوکپال کے ممبر کا انتخاب جج، شہری اور آئینی ادارے مل کر کریں گے۔ لوکپال کو چننے کے عمل میں سرکار کا کوئی دخل نہیں ہوگا۔ لوکپال یا لوک آیکت کا کام کاج پوری طرح شفاف ہوگا۔لوکپال کے کسی بھی ملازم کے خلاف شکایت آنے پر اس کی جانچ دو مہینے میں پوری کر اسے برخاستک ردیا جائے گا۔سی بی سی ، ویجی لنس محکمہ اور سی بی آئی کو اینٹی کرپشن محکمے کو لوکپال میں ہی ملا دیا جائے گا۔
لوکپال کے پاس کسی بھی کرپٹ جج یا نیتا ،افسر کے خلاف جانچ کرنے اور مقدمہ چلانے کے لئے پورا اختیار اور سسٹم ہوگا۔ بدعنوانی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی سبھی طرح سے سکیورٹی لوکپال ہی کریں گے اور اگر آپ کا راشن کارڈ ، ووٹر کارڈ یا پاسپورٹ وغیرہ مقررہ وقت کے اندر نہیں بنتا ہے یا پولیس آپ کی شکایت درج نہیں کرتی تو آپ اس کی شکایت لوکپال سے کرسکتے ہیں۔ اسے یہ کام ایک مہینے کے اندر کرنا ہوگا اور کسی بھی طرح کے بدعنوانی کی شکایت لوکپال سے کرسکتے ہیں۔ جیسے راشن کی کالا بازاری، سڑک بنانے میں عمدگی کو نظر انداز کرنا، پنچایت یا فنڈ یا دوسرے مدوں کے پیسے میں خورد برد وغیرہ وغیرہ۔
آخر میں ایک دلچسپ رپورٹ۔ دہلی پولیس کا دعوی ہے کہ انا ہزارے کا اثر کرمنل برادری پربھی چھایا ہوا ہے۔ یقین کریں کہ جب سے انا کی تحریک شروع ہوئی ہے دہلی کے کرائم ریٹ میں گراوٹ آئی ہے۔ دہلی پولیس کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کے پچھلے ہفتے میں دہلی میں کرائم شرح میں75 فیصدی گرافٹ آئی ہے۔ جس شہر میں اوسطاً کم سے کم 7 سنگین قسم کے جرائم ہوتے ہیں وہاں ایک بھی آبروریزی، قتل کی واردات نہیں ہوئی ہے۔ یہ انا ہی کا کمال ہے۔
 Anil Narendra, Anna Hazare, Corruption, Daily Pratap, Lokpal Bill, Ram Lila Maidan, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟