ایک اور عرب ڈکٹیٹر کی بدائی
Published On 25th August 2011
انل نریندر
مصر کے تحریر چوک سے شروع ہوئی عوامی آندھی اب لیبیا تک پوری طرح پہنچ چکی ہے۔ تقریباً 42 سال تک لیبیا میں راج کرنے والے کرنل معمر قذافی کاوقت قریب آگیا ہے۔ پیر کو راجدھانی ترپولی کے زیادہ تر حصے پر لیبیائی باغیوں کا قبضہ ہوگیا ہے۔ باغی لڑاکوں نے قذافی کے بیٹے اور ایک طرف ان کے جانشین رہے سیف علی اسلام کو پکڑ لیا ہے۔ سیف اپنے والد کے ساتھ عالمی کرمنل عدالت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات کا سامنا کررہا ہے۔ نیٹو کی ترپولی اور آس پاس کے علاقوں میں بمباری جاری ہے۔ اس نے کہا ہے کہ جب تک قذافی حمایتی فوجی خود سپردگی نہیں کردیتے یا اپنے بیرک میں نہیں لوٹ جاتے تب تک بمباری جاری رکھی جائے گی۔قذافی لا پتہ ہیں کچھ کا کہنا ہے کہ وہ پڑوسی ملک الجزائر فرار ہوگئے ہیں یا ہوسکتا ہے کہ وہ کسی بنکر میں چھپے بیٹھے ہوں۔ قذافی کے اقتدار کی علامت ترپولی کے گرین چوک میں شہریوں کی خوشی منانے کے درمیان عالمی برادری نے لیبیائی لیڈرسے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اقتدار چھوڑدیں۔ امریکی صدر براک اوبامہ سمیت کئی دنیا کے لیڈروں نے پیر کے روز کہا کہ لیبیا میں مستقبل کی شکل میں معمر قذافی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا تشدد کے خاتمے کا یہ طریقہ کافی آسان ہے۔ کرنل قذافی اور ان کے عہد کو یہ بات قبول کرلینی چاہئے کہ ان کے اقتدار کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ قذافی اب میدان چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ قذافی کے پاس اقتدار میں بنے رہنے کا اب کوئی جواز باقی نہیں ہے۔
اس میں کوئی شبہ اب نہیں لگتا کہ پچھلے42 سالوں سے لیبیا کے اقتدار پر قابض قذافی کی حکومت اب ڈھے جانے کے دہانے پر کھڑی ہے۔ جہاں باغیوں کا یہ کہنا کہ اگر قذافی اقتدار چھوڑنے کا اعلان کردیں تو وہ اپنی کارروائی روک سکتے ہیں۔ وہیں قذافی ان کی پیشکش کو قبول کرنے سے پہلے ریڈیو پیغام کے ذریعے قبائلی لوگوں سے اپیل کررہے ہیں کہ وہ ترپولی آکر باغیوں سے جنگ کریں۔ ورنہ وہ فرانسیسی فوج کے خادم بن جائیں گے۔ ان کے اس قدم سے صاف ہے کہ وہ اب سمجھ چکے ہیں کہ ان کے دن گنے چنے رہ گئے ہیں۔ پچھلے برس دسمبر میں تیونس کے جیسمین انقلاب اور پھر مصر میں حسنی مبارک کے عدم تشدد تختہ پلٹ کے بعد لیبیا میں قذافی کے خلاف بغاوت غیرمتوقع نہیں تھی۔ دراصل ان کے خلاف باغی تو فروری میں ہی اپنی تحریک چھیڑ چکے تھے جسے انجام تک پہنچنے میں اتنا وقت لگا ہے کہ اس کے پیچھے لیبیا کی فوجی مشینری پر قذافی کی پکڑ کار پتہ چلتا ہے۔ محض27 سال کی عمر میں قذافی نے1969 میں راجہ ادیس کو بے دخل کرکے لیبیا کے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب دنیا میں سوویت روس کی رہنمائی میں سامراج اور امریکہ کے سرمایہ داری نظام کے درمیان لڑائی چل رہی تھی تب نوجوان قذافی نے اپنی گرین بک کے ذریعے اقتدار کا نیا خاکہ پیش کیاتھا اور اسے نام دیا تھا ’’جمہاریہ‘‘ مگرصحیح معنوں میں لیبیا میں جمہوریت کبھی نہیں آئی۔ کیونکہ وہاں سیاسی پارٹیوں پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ جس نوجوان نے جمہوریت کا خواب دکھایاتھا وہ بعد میں برسوں تک اپنی تاریکیوں میں غرق ہوتا چلا گیا۔ یہ ہی نہیں ایک وقت تو ایسا بھی آیا جب قذافی نے امریکہ، فرانس وغیرہ ملکوں پر اسلامی جہادیوں کو حیران کرکھلی حمایت دی تھی۔ تبھی سے قذافی امریکہ اور مغربی ممالک کی آنکھ میں کانٹا بنا ہوا ہے۔آج اگر لیبیا میں باغی حاوی ہوگئے ہیں تو اس کے مغربی ممالک کو حمایت بھی ایک وجہ ہے۔ اس لئے اوبامہ نے قذافی سے کہا ہے کہ اب لیبیا میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے قذافی کے بعد کیا ہوگا؟ لیبیا کے لئے یہ امتحان کی گھڑی ہے۔ اگر موجودہ حکومت چلی بھی گئی تو کیا نئے قانون سسٹم وہاں نافذ ہوپائیں گے یا پھر بدامنی کا ماحول پیدا ہوگا۔ سوال یہ بھی ہے کہ وہاں ایک نئے سرے سے حکومت قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی یا بدلہ لینے پر زور دیا جائے گا؟ اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ نئے سسٹم میں اسلامی کٹر پنتھی پوری طرح سے حاوی ہوجائے۔ جیسے دیگر عرب ممالک میں ہوا ہے۔ اتنا ہی نہیں یہ ڈر بھی موجود ہے کہ کہیں کرنل معمر قذافی کے ہٹنے کے بعد لیبیائی سماج بکھر نہ جائے۔ آنے والے کچھ مہینے لیبیا کے لئے کافی چیلنج بھرے ثابت ہوسکتے ہیں۔
America, Anil Narendra, Daily Pratap, Libya, Obama, USA, Vir Arjunاس میں کوئی شبہ اب نہیں لگتا کہ پچھلے42 سالوں سے لیبیا کے اقتدار پر قابض قذافی کی حکومت اب ڈھے جانے کے دہانے پر کھڑی ہے۔ جہاں باغیوں کا یہ کہنا کہ اگر قذافی اقتدار چھوڑنے کا اعلان کردیں تو وہ اپنی کارروائی روک سکتے ہیں۔ وہیں قذافی ان کی پیشکش کو قبول کرنے سے پہلے ریڈیو پیغام کے ذریعے قبائلی لوگوں سے اپیل کررہے ہیں کہ وہ ترپولی آکر باغیوں سے جنگ کریں۔ ورنہ وہ فرانسیسی فوج کے خادم بن جائیں گے۔ ان کے اس قدم سے صاف ہے کہ وہ اب سمجھ چکے ہیں کہ ان کے دن گنے چنے رہ گئے ہیں۔ پچھلے برس دسمبر میں تیونس کے جیسمین انقلاب اور پھر مصر میں حسنی مبارک کے عدم تشدد تختہ پلٹ کے بعد لیبیا میں قذافی کے خلاف بغاوت غیرمتوقع نہیں تھی۔ دراصل ان کے خلاف باغی تو فروری میں ہی اپنی تحریک چھیڑ چکے تھے جسے انجام تک پہنچنے میں اتنا وقت لگا ہے کہ اس کے پیچھے لیبیا کی فوجی مشینری پر قذافی کی پکڑ کار پتہ چلتا ہے۔ محض27 سال کی عمر میں قذافی نے1969 میں راجہ ادیس کو بے دخل کرکے لیبیا کے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب دنیا میں سوویت روس کی رہنمائی میں سامراج اور امریکہ کے سرمایہ داری نظام کے درمیان لڑائی چل رہی تھی تب نوجوان قذافی نے اپنی گرین بک کے ذریعے اقتدار کا نیا خاکہ پیش کیاتھا اور اسے نام دیا تھا ’’جمہاریہ‘‘ مگرصحیح معنوں میں لیبیا میں جمہوریت کبھی نہیں آئی۔ کیونکہ وہاں سیاسی پارٹیوں پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ جس نوجوان نے جمہوریت کا خواب دکھایاتھا وہ بعد میں برسوں تک اپنی تاریکیوں میں غرق ہوتا چلا گیا۔ یہ ہی نہیں ایک وقت تو ایسا بھی آیا جب قذافی نے امریکہ، فرانس وغیرہ ملکوں پر اسلامی جہادیوں کو حیران کرکھلی حمایت دی تھی۔ تبھی سے قذافی امریکہ اور مغربی ممالک کی آنکھ میں کانٹا بنا ہوا ہے۔آج اگر لیبیا میں باغی حاوی ہوگئے ہیں تو اس کے مغربی ممالک کو حمایت بھی ایک وجہ ہے۔ اس لئے اوبامہ نے قذافی سے کہا ہے کہ اب لیبیا میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے قذافی کے بعد کیا ہوگا؟ لیبیا کے لئے یہ امتحان کی گھڑی ہے۔ اگر موجودہ حکومت چلی بھی گئی تو کیا نئے قانون سسٹم وہاں نافذ ہوپائیں گے یا پھر بدامنی کا ماحول پیدا ہوگا۔ سوال یہ بھی ہے کہ وہاں ایک نئے سرے سے حکومت قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی یا بدلہ لینے پر زور دیا جائے گا؟ اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ نئے سسٹم میں اسلامی کٹر پنتھی پوری طرح سے حاوی ہوجائے۔ جیسے دیگر عرب ممالک میں ہوا ہے۔ اتنا ہی نہیں یہ ڈر بھی موجود ہے کہ کہیں کرنل معمر قذافی کے ہٹنے کے بعد لیبیائی سماج بکھر نہ جائے۔ آنے والے کچھ مہینے لیبیا کے لئے کافی چیلنج بھرے ثابت ہوسکتے ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں