بھارت ہی نہیں ساری دنیا میں انا کا ڈنکا



Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily 
Published On 21st August 2011
انل نریندر
فوج سے ریٹائرڈ ہوئے ایک جوان نے کبھی تصوربھی نہ کیا ہوگا کہ ایک دن وہ سارے دیش میں اس قدر چھا جائیں گے۔انہیں لوگ دوسرا گاندھی کہیں گے۔ جی ہاں میں انا ہزارے کی بات کررہا ہوں۔انا نے کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ ایک دن انہیں نہ صرف بھارت کا بچہ بچہ جان جائے گا بلکہ پوری دنیا ان کی طاقت کو سلام کرے گی۔ مشن نیک ہو ،پختہ عزم ہو اور میڈیا کی پوری طاقت لگ جائے تو آدمی ہی مہاتما کا درجہ پا لیتا ہے۔ آج انا ہزارے کی حمایت صرف بھارت میں ہیں نہیں بلکہ امریکہ، برطانیہ، پاکستان تک میں پھیل چکی ہے۔ بدعنوانی انسداد بل ''جن لوکپال '' بل کی حمایت میں انشن کی اجازت نہ دے رہی مرکز کی یوپی اے سرکار ک جھکنے کیلئے مجبور کرنے والے مشہور گاندھی وادی رضاکار انا ہزارے کی دنیا بھر میں بحث چھڑی ہوئی ہے۔ امریکہ کی نامور میگزین ٹائم نے اپنی ویب سائٹ پر اس مسئلے کو کافی ترجیح دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بدعنوانی کی مخالفت کررہے ایک سماجی رضاکار نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو گھٹنے کے بل جھکنے کے لئے مجبور کردیا ہے۔جریدے ٹائم نے لکھا ہے سماجی رضاکار انا ہزارے نے 15 دن کا انشن شروع کرنے کی اجازت ملنے کے بعد بدھ کی رات جیل سے باہر آنے پر رضامند ہوگئے۔یہ سمجھوتہ حکومت کے بھروسے کو پھر سے قائم کرنے کیلئے ہوسکتا ہے موزوں نہ ہو۔ کیونکہ جنتا نے بڑھتی مایوسی اور بدعنوانی سے نمٹنے کی اپنی کوششوں کے تئیں اور مہنگائی سے لڑ رہی ہے۔ امریکہ کے ایک اور نامور اخبار دی نیویارک ٹائمس نے انا اور پولیس کے درمیان انشن کولیکر ہوئی رضامندی کو پہلی خبر بنایا ہے۔ اخبار نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ مظاہرہ کررہے انا اور پولیس کے درمیان ایک اتفاق رائے نہیں بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا جمعرات کی صبح انا کے جیل چھوڑنے اور بدعنوانی کے خلاف انشن کیلئے اجازت مل گئی ہے۔ امریکہ کے ایک اور جریدے وال اسٹریٹ نے لکھا ہے کہ گاندھی وادی رضاکار انا کی حمایت بھارت کی جنتا بھلے ہی سڑکوں پر اترآئی ہے لیکن اس کا موازنہ ارب دنیا میں ہوئی بغاوت سے نہیں کیا جاسکتا۔ اخبار نے لکھا ہے کہ بدعنوانی سے اب تنگ آچکے لوگوں کا سڑکوں پر اترنا اور ووٹنگ کی طرح بھارت کے استحکام اور زندہ دل جمہوریت کا حصہ ہے جبکہ ارب دنیا میں زیادہ تر عوامی بغاوت میں اقتدار کی مکمل تبدیلی پر زور دیا گیا ہے۔سماجی رضاکار انا ہزارے کو نئے گاندھی سے تشبیہ دیتے ہوئے برطانوی میڈیا نے ان کی تحریک کو غیر معمولی طور پر کامیاب قراردیا ہے لیکن بدعنوانی کی روک تھام کیلئے سپر مین جیسی اتھارٹی کے خلاف وارننگ دی ہے۔ دی ڈیلی ٹیلی گراف نے سرخی جمائی ہے ''ایک نیاگاندھی'' ٹیلی گراف کی پیٹرک فرنچ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انا ہزارے کی غیر معمولی طور سے کامیاب مہم ۔اس گاندھی وادی نیتا نے اپنی بھوک ہڑتال سے حکومت کو الجھن میں ڈال دیا ہے۔اخبار نے ہندوستانی عدلیہ ،سیاست اور سماجی مشینری پر بھی تنقید کی ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ ان کی تحریک کے منعقد کرنے والوں کو حکمراں کانگریس پارٹی کی سنگینغلطیوں کا فائدہ ملا ہے۔ اخبار نے لکھا ہے اس سب کے بیچ افسرشاہی سے وزیراعظم بنے منموہن سنگھ کی سرکار اور جنتا اور میڈیا کے درمیان تعلق کے بنیادی پہلوؤں کو سمجھنے میں ناکام رہی۔ اخبار کے مطابق بھاجپا نے اس حالت کا فائدہ اٹھایا ہے۔ اخبار گارجین کی رپورٹ کہتی ہے تبدیلی کے لئے انا ہزارے نے لاکھوں ہندوستانیوں کو جگایا ہے۔ اخبار آگے لکھتا ہے ''سبھی پرانے طریقوں کو ختم کرنے کے مطالبے کے ساتھ سماج کے تمام لوگ متحد ہوئے ہیں۔ بیشک حکمرانوں کے ذریعے تیار بنا جوابدہی والے قانون بنائے ہوئے ہیں اور موجودہ لیڈروں نے ان کا بیجا استعمال کیا ہے۔ گارجین نے انا ہزارے کی سوانح حیات بھی شائع کی ہے۔
انا کی دھوم پاکستان میں بھی مچی ہوئی ہے۔ اخبار ڈان نے انا ہزارے کے بارے میں لکھا ہے کہ بھارت کی آزادی تحریک کے لیڈروں کی طرح معمولی سا دکھائی دینے والا ، سفید کپڑے پہنے انا ہزارے تحریک آزادی کے مجاہد مہاتما گاندھی کے طریقوں کو اپنا کر بدعنوانی کے خلاف لڑائی لڑنے والے ایک مثالی لیڈر بن گئے ہیں۔ انا ہزارے کا پڑوسی پاکستان میں اتنا گہرا اثر پڑا ہے کہ وہاں بھی انا کی طرز پر عوامی تحریکیں شروع ہوگئی ہیں۔ انا ہزارے سے ترغیب پا کر پاکستان کے ایک 68 سالہ تاجر اختر حسین نے پاکستان سے بدعنوانی کو ختم کرنے کے لئے بھوک ہڑتال پر جانے کا اعلان کردیا ہے۔ بدعنوانی کے معاملے پر وہ پہلے 21 جولائی سے بھوک ہڑتال پر جانے والے تھے لیکن اب وہ 12 ستمبر2011 سے اپنی ہڑتال شروع کریں گے۔ انا کی تعریف کرتے ہوئے سماجی رضاکار تاجر جہانگیر اختر حسین نے بتایا ہے کہ پاکستان میں بدعنوانی کے معاملات سنگین ہیں۔ ان کا کہنا ہے پاکستانی پارلیمنٹ کو بھی ہندوستان کی طرح بدعنوانی کو ختم کرنے کیلئے قانون لانا چاہئے۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان میں بدعنوانی بھارت سے کافی زیادہ ہے۔انا کا دنیابھر میں ڈنکا بج رہا ہے۔ ممکن ہے کہ آنے والے نوبل انعام کیلئے انتخاب کے وقت انا ہزارے کا نام بھی شامل ہوجائے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟