افغانستا ن اب القاعدہ ،اسلامک اسٹیٹ کا گڑھ بن گیا!

دہشت گردی کے مسئلے پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی تازہ رپورٹ یقینی طور پر پریشانی بڑھا نے والی ہے ۔جس میں کہا گیا ہے کہ افغانستان اب القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ جیسی دہشت گرد تنظیموں کا گڑھ بن گیا ہے۔حالیہ وقت میں دہشت گرد گروپ افغا نستان میں کہیں زیادہ آزادی کا مزہ لے رہے ہیں۔اور ایسا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ طالبان نے غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیوں پر لگام کسنے کیلئے کوئی قدم اٹھا یا ہے ۔یہ دعویٰ رپورٹ میں کیا گیا ہے ۔ آتنکی گروپ اسلامک اسٹیٹ کا ٹارگیٹ خود کو افغانستان کے اہم حریف طاقت کی شکل میں خود کو قائم کرنے کا ہے اور اپنے اثر کو ساتھ ایشیا کے دیشوں تک پھیلانے کا ہے ۔ اسلامک اسٹیٹ کے ذریعے بین الاقوامی عمل اور حفاظت کیلئے اٹھا ئے گئے خطرے کا مقابلہ کرنے کیلئے اقوام متحدہ کی طرف سے ممبر ممالک کو دئے جانے والے تعاون مبنی چودھویں سیکریٹری جنرل کی رپورٹ میں نشا ن دہی کی گئی ہے کی 15اگست کو کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان کا سیکورٹی کا پس منظر پوری طرح سے بدل گیا ہے۔ حالاں کہ اس پر حیرانی اس لئے بھی ہو رہی ہے کہ پچھلے سال اگست میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی دنیا کے تمام ملکوں میں یہ اندیشہ جتلا جا رہا تھا کہ پاکستان کی طرح افغانستان بھی دہشت گرد تنظیموں کا نیا ٹھکانہ نہ بن جائے لیکن اقوام متحدہ کی سیکریٹری جنرل کی رپورٹ سے یہ اندیشہ صحیح ثابت ہو گیا ہے۔ اب تک ایسے طالبا ن نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے دہشت گردی سرگرمیاں چلنے نہیں دے گا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ طالبانی ساکھ اور کسی آتنکی تنظیم سے کم نہیں ہے۔رپو رٹ میں مزید بتایا گیاہے کہ اسلامک اسٹیٹ اب افغانستان میں خود کو بڑی طاقت کی شکل میں قائم کر رہاہے ۔ ظاہر ہے کہ اگر آئی ایس یہاں پیر جمانے میں کامیاب ہو گیا تو یہ خطرہ بھارت سمیت جنوبی ایشیا کے مما لک سے کہی زیادہ ہے۔ بھارت تو پہلے ہی سے یہ اندیشہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ پاکستان کے اشارے پر طالبان آتنکی تنظیموں اور بھاڑے کے غیر ملکی لڑاکوو¿ ں کو کشمیر میں بھیج کر شورش پھیلا سکتاہے ۔ اس کے علاوہ سری لنکا جیسے دیش بھی آئی ایس کے خطرے سے پریشان ہیں۔ اور عالمی سطح پر اس نئے خطرے سے نمٹنے کیلئے ایک مشتر کہ حکمت عملی ہو جس پر سنجیدگی سے غور ہو نا چاہیے ۔لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ دہشت گردی کے مسئلے پر کچھ بڑے ملکوں کی دوہری اور موقع پرست پالیسی دہشت گر د تنظیموں کی طاقت بڑھا رہی ہے۔ اگر ہم صحیح معنیٰ سے دہشت گردی سے لڑنا چاہتے ہیں تو بھارت کی طرح دہشت گردی پر زیرو ٹالورینس کی پالیسی اپنا نی ہوگی۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟