نئی سٹی اسکین سے ریمیڈیشن کا خطرہ بہت کم ہے !حال ہی میں ایمس کے ڈائریکٹر رندیپ گلیریا نے سٹی اسکین کو لیکر ایک بیان جاری کیا ہے جس کے بعد ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے حالانکہ سبھی ڈاکٹروں نے ان کے بیان سے نا اتفاقی ظاہر کی ہے کچھ ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ سٹی اسکین سے نہ تو کینسر کا خطرہ ہے اور نہ ہی ایک سٹی اسکین 300سے 400کے ایکسرے کے برابر خطرناک ہے در اصل ڈاکٹر گلیریا نے کہا تھا کہ کورونا کے اس وقت میں سبھی سٹی اسکین سے 300سے 400ایکسرے کے برابر نقصان دہ ہے اور اس سے کینسر ہونے کا خطرہ بنا رہتا ہے حالانکہ ان کے اس بیان پر راجیو گاندھی کینسر انسٹی ٹیوٹ اینڈ ریسرچ سینٹر نے انٹر ویشنل ریڈیلوجی ڈیپارٹمینٹ کے کنسل ٹینٹ ڈاکٹر ابھیشیک بنسل نے کہا کہ یہ بیان پوری طرح غلط ہے آج ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ سٹی اسکین مشین بے حد کم ریڈیشن ہوتی ہے آج سے 20یا 30سال پہلے سٹی اسکین مشینوں میں ریڈیشن بہت زیادہ ہوتی ہے اور کینسر کا خطرہ ہوتا تھا ۔ نئی سٹی اسکین مشینوں سے کینسر ہونے کا خطرہ اتنا ہی ہے جتنا ایک سال میں ہمارے آب و ہوا میں موجود ریڈیشن کا خطرہ بنا رہتا ہے آج ایک سٹی اسکین میں صرف پانچ سے دس ایکسرے کے برابر ریڈیشن ہوتی ہے جب کسی شخص کا سینے کا سٹی اسکین کیا جا تا ہے تو اسے مشین میں صرف اسے مشین میں 7سے 8سیکینڈ رکھا جاتا ہے اسٹا ر ایمجنگ اینڈ پیتھ لیب کے ڈائریکٹر سمیر بھاٹیا کہتے ہیں جب کسی بڑے ادارے سے وابستہ شخص کوئی بیان دیتا ہے تو اس کا لوگوں پر کافی اثر پڑتا ہے حال ہی میں سٹی اسکین پر ڈاکٹر رندیپ گلیریا کی جانب سے دیئے گئے بیان کے بعد یہی ہوا میری پہچان کے کئی لوگوں نے مجھے فون کیا وہ پوچھ رہے تھے کہ ایک ڈاکٹر نے انہیں سٹی اسکین کے لئے کہا ہے لیکن اب وہ کنفیویز ہے کہ وہ سٹی اسکین کروائیں یا نہیں ؟ سمیر کہتے ہیں کہ آج سٹی اسکین مشینیں اڈوانس قسم کی ہیں اور ان میں ریڈیشن کم ہوتا ہے اسی وجہ سے کینسر کا خطرہ بھی کم ہوگا ڈاکٹر گلیریا نے جو بیان دیا ہے وہ آج سے بیس سے تیس سال پہلے کی مشینوں کے حساب ٹھیک ہے لیکن آج کی ماڈرن اور ایڈوانس کی مشینوں کے حساب سے یہ بیاب بلکل صحیح نہیں ہے حالانکہ ہم بھی لوگوں کو یہی صلاح دیتے ہیں کہ اگر ہلکے اثرات ہیں تو سٹی اسکین نہ کروائیں لیکن اگر زیادہ ہیں تو سٹی اسکین کروائیں ۔
(انل نریندر)
’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ
سپریم کورٹ میں بھی عجیب و غریب مقدمات آرہے ہیں۔ تازہ مثال بحریہ کے کچھ افسروں پر بیویوں کی ادلہ بدلی سے متعلق معاملات ہیں۔ بحریہ کے ایک افسر سے الگ رہ رہی ان کی بیوی نے اپنی ایف آئی آر میں الزام لگایا کہ ان کے شوہر کے علاوہ بحریہ کے چار افسران ان میں سے ایک کی بیوی ’وائف سواپنگ‘ میں شامل ہے۔ سال 2013ء میں کوچی میں تعینات ایک بحریہ کے افسر کی بیوی نے بحری جوانوں کی بیویوں کی ادلا بدلی کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ شوہر کے سامنے ہی اس سے اجتماعی آبروریزی کی گئی۔ شکایت کے باوجود پولیس نے کارروائی نہیں کی۔ اس لئے معاملے کی جانچ کے لئے سپریم کورٹ سی بی آئی سے معاملے کی جانچ کرائے۔ ریاستی حکومت نے اس کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ ریاستی پولیس اس معاملے کی جانچ کرسکتی ہے اور اسپیشل ٹیم جانچ کرہی رہی ہے۔متاثرہ خاتون نے اپنی شکایت میں اپنے شوہر لیفٹیننٹ روی کرن کبدولا، لیفٹیننٹ ایشور چند ودیاساگر، کیپٹن اشوک اکتا اور اس کی بیوی پرینا اکتا ودو دیگر فوجی افسران کو ملزم بنایا گیا ہے۔ متاثرہ نے الزام لگایا ہے کہ جب اس کے شوہر کی کوچی میں پوسٹنگ تھی تو وہ انہیں بیویوں کی ادلا بدلی پارٹیوں میں لے جا...
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں