کیا ممتا کی جیت سے سنگھ خوش ہے؟

اگر یہ کہا جائے کی بنگال اسمبلی چناو¿ میں ممتا بنرجی کی جیت سے آر ایس ایس خوش ہے تو کیا آپ کویہ بات ہضم ہوپائے گی ؟ بھلے ہی آپ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہوں گے کہ کیا یہ بات صحیح ہے؟ 2021کے مغربی بنگال اسمبلی چناو¿ میں بھاجپا بری طرح ہار گئی اور اس کی پالتو تنظیم اس سے کیسے خوش ہوگی ؟نریندر مودی اور بی جے پی دونوں ہی سیاست داں یا پارٹی کا آخری مقصد چناو¿ جیتنا اور سرکار بنانا ہے لیکن آر ایس ایس شروع سے آخر تک دھارمک انجمن مانی جاتی ہے اور اس کا نشانہ اقتدار پر قبضہ اتنا نہیں جتنا بھارت کو ہندو راشٹر بنانا ہے ۔ آر ایس ایس کا بنیادی مقصد ہے ہر ہندو میں ہندتو کا وقار پیدا کرنا ہے ۔ بنگال چناو¿ کمپین کے دوران ممتا بنرجی کا چندی پاٹھ اور خود کو برہمن پریوار کی بیٹی کی شکل میں دکھانا ، بیشک موہن بھاگوت کیلئے خوشی کی بات ہوگی۔ اسے لیکر سوال اٹھ سکتا ہے؟ کہ بی جے پی کے ہندوتو کو لیکر تو بہت ساری باتیں ہوتی ہیں ، تو پھر ؟ در اصل یہاں کا تجزیہ تھوڑا ہٹ کر ہے ۔ ہندوتو پارٹی کا تمغہ تو شروع سے ہی بی جے پی کو ملا ہوا ہے لیکن حال کے کچھ انتخابات نے یہ سمجھا دیا ہے کہ صرف ممتا بنرجی ہی نہیں اروند کیجریوال سے لیکر راہل گاندھی تک ، ہر سیاست داں چناو¿ کے وقت بڑی آسانی سے ہندوتو کا سہارہ لیتا ہے ۔ کیجریوال کو ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کرنا پڑ رہا ہے۔ وہیں راہل گاندھی کو مندر مندر جا کر جنو دکھانا پڑ رہا ہے ۔ ہندوتو واسی تنظیم کے طور پر بی جے پی ہمیشہ ہی کٹر ہندوتو کی حمایتی رہی ہے ۔ لیکن آر ایس ایس کے کرتا دھرتا ہے کہ دیگر سیاسی پارٹیوں کے نیتا اپنے آپ کو ہندوتو کی شکل میں پیش کرنے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرتے ۔ ایسے میں موجودہ حالات میں تاریخ کا پہیا اگر گھومتا ہے اور رہا سیاسی پارٹی کے نیتا ہندوتو کی حیثیت کو اجاگر کرنے میں لگ جائیں تو کیا سنگھ کو خوشی نہیں ملے گی؟ لمبے عرصے سے پل رہی یہ امید سنگھ کو خوشی دینے کے باوجود بی جے پی کے بنیاد ہلانے کیلئے کافی ہے ۔ بنگال چناو¿ مودی اور بھاجپا کیلئے خطرے کا اشارہ ضرور ہیں 0سے سیدھے اتنی سیٹیں جیتنا بیشک بڑی کامیابی ہے لیکن نمبروں کی کسوٹی پر ایک بڑی ناکامی کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ بی جے پی 2016میں مغربی بنگال میں چناو¿ میں صرف 3سیٹیں اور 10فیصدی ووٹ سے ہی بی جے پی کو تسلی کرنی پڑی تھی ۔ سال 2019کے لوک سبھا چناو¿ میں اس سے بہت آگے 18سیٹ اور 40فیصدی وو ٹ ملے لوک سبھا سیٹ کے اس نتیجے سے فطری طور پر 2021کے اسمبلی چنا و¿ کو لیکر جوش تھا ۔ وزیر اعظم سے لیکر امت شاہ و دیگر مرکزی لیڈر باقی سب کچھ چھوڑ کر بنگال کو ہی نشانہ بنا کرکے میدان میں اتر پڑے لیکن بازی ان کے ہاتھ سے نکل گئی ۔ اس ہار کی کئی وجہ ہیں ۔ سال 2002میں جس طرح نریندر مودی گجراتی ساکھ کا کارڈ کھیل کر گجرات چناو¿ جیتے اسی طرح ممتا نے 2021میں بی جے پی کے جارہانہ رویئے کے جواب میں بنگالی ساکھ کا استعمال کیا بی جے پی کے جے شری رام کے نعریٰ جیسا اثر نارتھ انڈیا میں تو کرتا ہے ویسے بنگال میں نہیں پید ا کر پایا اس کے جواب میں ممتا نے جے چنڈی ، جے درگا کا نعری دیکر بنگالیوں کا دل جیت لیااس کے برعکس بی جے پی کے پردیش صدر دلیپ گھوش نے بنگال کی ناری شکتی درگا کی پہچان کو لیکر جس طرح کا تنز کیا اس سے بھی پارٹی کے خلاف بنگالیوں میں ناراضگی بڑھی ۔ بنگالی کلچر کو لیکر بی جے پی کی وقت کی کمی نے ممتااشو بنا کر گھمایا ۔ بنگال اپنی بیٹی کو اکثریت کے ساتھ لیکر آیا اور جھٹکا لگا ہندوتو وادی سروے سروا بھاجپا کو۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!