مظاہرین کسان کی سنئے! ہم فیصلہ کن جنگ لڑنے آئے ہیں

نئے زرعی قوانین کے مسئلے پر کسانوں کی تحریک کا دائرہ بڑھنے کے ساتھ اور سرکار کے سامنے یہ بڑی چنوتی ہورہی ہے کہ وہ اب اس مسئلے کو کیسے سلجھائے گزشتہ سات دنوں سے راجدھانی کی سرحدپر ڈٹے پنجاب ہریانہ سمیت کئی ریاستوں کے کسانوں نے لمبی لڑائی کا اعلان کیا ہے ۔ سندھو بارڈر پر پنچایت کے بعد کسانوں نے ایک آواز میںکہا کہ وہ یہاں فیصلہ کن جنگ لڑنے کےلئے آئے ہیں اور جب تک مانگیں مان نہیں لی جاتی یہ لڑائی جار ہے گی سرکار نے منگل کے روز نئے زرعی قوانین کے خلاف تحریک چلا رہے کسانوں کے مطالبات پر غور کرنے کےلئے ایک کمیٹی بنانے کی پیشکش کی تھی جسے کسانوں نے مسترد کردیا یہ کسان انجمنیں تینوں نئے زرعی قانون کو پوری طرح منسوخ کرنے پر اڑے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم ہماری بات سنیں ہم اپنی مانگوں پر سمجھوتا نہیں کریں گے اگر حکمراں پارٹی ہماری تشویش پر غور نہیں کرتی تو اسے بھاری قیمت چکانی پڑے گی ۔کسان لیڈر گرونام سنگھ چندنی نے کہا کہ کسان لیڈر گرونام سنگھ چندنی نے کہا کہ ان کے آندولن کا دبانے کے لئے مظاہرین کے خلاف ایکیس مقدمے درج کئے جاچکے ہیں ۔ زرعی قانون کے خلاف کسانون کے سوال کتنے جائز ہیں اور سرکاری دعوے کتنے کھوکھلے ہیں اتوار کو پریس کانفرنس میں ایک ایک کرکے سرکار کے پورے ایجنڈے کو بے نقاب کردیا ہے رہی سہی کثر اپوزیشن اور خود سرکار نے اپنی منشاظاہر کردی ہے اور ناراض کسانوں نے سوال کہ سرکار بتائے نئے زرعی قانون کو کیوں لانا پڑا ؟یہ بھی بتائے کسان انجمنیں اور کن کسانوں نے سرکار سے ان زرعی قوانین میں نام نہاد اصلاحات کو لانے کی مانگ کی تھی ؟ سرکارکے ان زرعی قوانین کے خلاف آندولن کے درمیان دہلی مارچ کرنے والے کسان گروپ کے نمائندوں نے کہا کہ سرکارصرف کارپوریٹ کمپنیوں کی بہبود میں دلچسپی رکھتی ہے اسی وجہ سے اس طرح کے کالے قانون بنائے جا رہے ہیں اگر ایسا نہیں ہے تو سرکار کسانوں کے سوالوں کا جواب دینے سے کیوں بھاگ رہی ہے ؟ وزیر داخلہ امت شاہ کے پرستاو کو مسترد کرنے کے بعد کسان لیڈروں نے کہا کہ ہم سرکار لیڈروں سے پوچھتے ہیں کہ کس کسان انجمن نے سرکارسے اپنا بھلا کرنے کی مانگ رکھی تھی دوسرا سرکار یہ بھی بتائے کون سے بچولیوں کو نکالنے کی بات کررہے ہیں ۔بچولیے سرکار کے ڈیفنس عہدوں میں بچولیے ہوتے ہیں منڈی میں صرف آڑتی سروس پرووائیڈر ہوتا ہے ۔ادھر پنجاب سے آئے احتجاجی کسان جتھے میں شامل 55سالہ سجن کی موت ہوگئی یہ کس کے سر پر ڈالی جائے ؟مشترکہ کسان سنگھرش کمیٹی کے ساتھ اب کیرل مہاراشٹر اتر پردیش اور راجستھان وغیرہ دوسری ریاستوں سے بھی کسان اکٹھے ہورہے ہیں۔ ادھر ہریانہ کی خاک پنچایتوں کے بعد دہلی ٹیکسی یونین نے بھی کسانوں کو ہمایت دینے کا وعدہ کیا ہے کسانوں اور کسان تحریک میں آہستہ آہستہ دوسری انجمنیں بھی شامل ہونے لگی ہیں تاکہ سرکار پر دباو¿ بنایا جاسکے ۔تاکہ سرکار قوانین واپس لے ادھر سیاسی نفع نقصان کے پیش نظر اس خطے کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہم تو یہ مشورہ دیں گے کہ کسان انجمنوں کو یقین دلائے وہ ان قوانین کو فی الحال ملتوی کرنے کو تیار ہے کسانوں کی جائز مانگوں کو قوانین میں شامل کریں ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!