تنازعہ خاتمے کےلئے سو دیشی جاگرن منچ کے چار سجھاو!

نئے زرعی قوانین پر مرکزی سرکار اپنی اتحادی جماعت اکالی دل کو نہیں منا پائی اس وجہ سے اس نے این ڈی سے باہر ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ اس کے بعد این ڈی کی دوسری اتحادی جماعت راشٹریہ لوک تانترک پارٹی نے بھی کسان آندولن کے درمیان مرکزی سرکار کو دھمکی دے ڈالی ہے پارٹی کے ایم پی ہنومان بینی وال نے این ڈی چھوڑنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اس کی طاقت کسان اور فوجی ہیں اگر مودی سرکار کوئی فوری کاروائی نہیں کرتی ہے تو مجھے این ڈی کے اتحادی ہونے پر نظر ثانی کرنی پڑ سکتی ہے ۔ اس درمیان خبر ہے آر ایس ایس سے وابستہ دو تنظیمیں بھارتی کسان سنگھ اور سو دیشی جاگرن منچ نے بھی زرعی قوانین سے پوری طرح مطمئن نہیں ہے ۔منچ کے قومی کنوینر اشونی مہاجن نے کہا کہ ہمیں بھی نئے زرعی قوانین میں کچھ خامیاں نظر آرہی ہیں انہیں لگتا ہے کہ اس میں اصلاح ہونی چاہئے کسان آندولن کا کیسے حل نکلے گا اس مسئلے پر بی بی سی نے منگل کے روز ویبنا رکے ذریعے مباحثے کا انعقاد کیا تھا۔ اس مباحثہ میں سو دیشی جاگرن منچ کے قومی معاون صدر اشونی مہاجن نے کہا کہ یہ نئے قوانین کسانوں کے مفاد میں تو ہیں لیکن کوئی بھی نیا قانون آئے تو اس میں اصلاح کی گنجائش رہتی اس سلسلے میں وہ چار اصلاحات بتاتے ہیں اصلاح نمبر۱۔اگر سرکار کسان کو اناج منڈی سے الگ کر رہی ہے تو نئے پرائیویٹ تاجر جو کسانوں کی اجناس خریدیں گے وہ اپنے کرٹل نہ بنا لیں اس کو روکنے کے لئے قانون میں اصلاح ضروری ہے اصلاح نمبر ۲۔بھارت کو غذائی سیکورٹی یقینی بنانی ہے تو سرکار کو کساکو بھی محفوظ رکھنا ہوگا اس لئے کسان کو اپنی اجناس کی لاگت سے بیس سے تیس فیصدی اونچے دام ملیں سرکار کو یہ یقینی بنانا چاہئے یہ سسٹم قانون کے ذریعے ہی یقینی ہوپائے گا۔ مرکزی سرکار کو اس کے لئے فلور پرائز طے کرنی چاہئے ۔اصلاح نمبر ۳۔نئے زرعی قوانین میں کنٹریکٹ فارمنگ کا انتظام کیا گیا ہے لیکن کسان کسی بھی تنازع کی صورت میں معاملے کو اے ڈی ایم کے پاس لے جاسکتا ہے لیکش اشونی مہاجن کی رائے میں کنٹریکٹ فارمنگ میں اگر کوئی تنازع کھڑا ہوتا ہے تو اے ڈی ایم کے پاس جانے کے بجائے الگ سے کسان عدالت ہونی چاہئے اس کے پیچھے دو وجہ بھی بتاتے ہیں ان کے مطابق عام کسان ایس ڈی ایم تک پہونچ نہیں ہوتی ۔اصلاح نمبر ۴۔کنٹریکٹ فارمنگ میں کسان کو اپنی فصل کی قیمت تب ملتی ہے جب فصل کی کٹائی ہوجاتی ہے ۔مرکزی سرکار کو ایسا سسٹم کرنا چاہئے کہ کچھ وقت کے بعد قستوں میں کل طے قیمت کی ادائیگی کسان کو ہوتی رہے ۔ اس لئے ایک بار جب کسان اور پرائیوٹ پارٹی کے درمیان کنٹریکٹ ہوجاتا ہے تو بیج بونے ،کیڑے مار دوا کے چھڑکا و سے اور سینچائی تک میں کسان کو بہت پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے ایک نئے سسٹم میں اب دلال نہیں جنہیں خود بی جے پی نیتا کسان کا اے ٹی ایم کہتے آئے ہیں تو سرکار کو ان کے لئے نئے اے ٹی ایم سسٹم طے کرناچاہئے ایم ایس پی کوئی فارمولہ سرکار نکال سکتی ہے اشونی نے اصلاح نمبر دو میں جس فلور پرائز کی بات کہی ہے دراصل کسان اسے ہی کم سے کم مارجنل قیمت کہہ رہی ہے ۔ کسانوں کی مانگ ہے کہ مرکزی سرکار تحریر میں انہیں یقین دہانی کرائے کی ایم ایس پی جاری رہے گی اور سرکار ی خرید بھی اسی مسئلے پر مرکزی سرکار اور کسانوں کے درمیان سب سے زیادہ اختلافات ہیں امید کی جاتی ہے وہ کسانوں کی جائز مانگوں پر غورکرکے نئے قانون میں ترمیم کرے گی اگر ایسا ہوتا ہے تعطل ختم ہوسکتا ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!